ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی، باہر سے پاکستانی حکومت بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے: عمران خان
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں حکمراں جماعت تحریک انصاف کے جلسے میں خطاب میں کہا ہے کہ ان کی حکومت تبدیل کرنے کے لیے بیرونِ ملک سے آنے والے پیسے سے سازش ہو رہی ہے اور اس سازش میں کچھ پاکستانی انجانے میں اور کچھ جان بوجھ کر استعمال ہو رہے ہیں۔
لائیو کوریج
’ایوان کی کارروائی قوانین کے مطابق آگے بڑھائی جائے گی‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سرکاری چینل پی ٹی وی کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 95 اور اسمبلی قواعد کے اصول 37 کے مطابق ایوان کی کارروائی آگے بڑھائی جائے گی۔
انھوں نے 25 مارچ یعنی آج کے روز صبح 11 بجے اجلاس طلب کیا تھا۔ قومی اسمبلی کے اس اہم اجلاس کے ایجنڈے میں اپوزیشن کی جانب سے دائر کردہ تحریک عدم اعتماد کی قرارداد شامل ہے۔
آرٹیکل 95 کے مطابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے تین سے سات روز کے اندر ووٹنگ ہوگی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ قرارداد اکثریت کے ساتھ منظور ہو جاتی ہے تو وزیر اعظم اپنے عہدے پر فائز نہیں رہیں گے۔
اسمبلی قواعد کے اصول 37 کے تحت سپیکر یہ قرارداد پیش کرنے سے قبل ارکان کے سوالات لے سکتے ہیں یا تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے دن مقرر کرسکتے ہیں۔
’عمران خان جیت چکے ہیں‘, سینیٹر فیصل جاوید
قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل حکومتی سینیٹر فیصل جاوید خان نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ان کے لیے وزیر اعظم ’عمران خان جیت چکے ہیں-‘
’اپوزیشن کا مقابلہ کسی روایتی وزیراعظم سے نہیں۔ عمران خان سے ہے۔ پوری قوم اپنے لیڈر کپتان کے ساتھ ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’جب عوام اپنا فیصلہ کرلے تو عوام کے نمائندے ان کے خلاف جا کر اپنی سیاست ہی ختم کریں گے۔ جو ہورہا ہے بہترین ہے۔ یہ ایک عظیم قوم بننے جارہی ہے۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔
X پوسٹ کا اختتام
قومی اسمبلی کا اہم اجلاس اب سے کچھ دیر میں, عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد
،تصویر کا ذریعہAFP
پاکستان کی پارلیمان کے ایوان زیریں قومی اسمبلی میں اب سے کچھ دیر میں ایک اہم اجلاس ہونے جا رہا ہے جہاں ملک کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی۔
اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق تلاوت، نعت اور قومی ترانے کے بعد اپوزیشن ارکان کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قراردار پیش کی جائے گی۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے برتری کے دعوے کیے جا رہے ہیں تاہم قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اس کی حمایت میں 172 یا اس سے زیادہ ووٹ درکار ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کے پاس کتنے ارکان؟
قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق حکومتی جماعت پی ٹی آئی کو اتحادیوں سمیت 178 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ ان اراکین میں خود پاکستان تحریک انصاف کے 155 اراکین، ایم کیو ایم کے سات، بی اے پی کے پانچ، مسلم لیگ ق کے بھی پانچ اراکین، جی ڈی اے کے تین اور عوامی مسلم لیگ کے ایک رکن حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔
دوسری جانب حزب اختلاف کے کل اراکین کی تعداد 162 ہے۔ ان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 57 اراکین، متحدہ مجلس عمل کے پندرہ، بی این پی کے چار جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔ اس کے علاوہ دو آزاد اراکین بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں۔
اپوزیشن کے اتحاد نے عمران خان کے خلاف 8 مارچ کو اس تحریک کی ریکوزیشن جمع کرائی تھی تاہم سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے 25 مارچ یعنی آج کے دن 11 بجے اجلاس طلب کیا۔ اسد قیصر نے بتایا تھا کہ او آئی سی کے اجلاس کی وجہ سے اس تاخیر کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اپوزیشن کی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ان پر آئین شکنی کا الزام لگایا تھا۔
قوانین کے تحت منتخب عوامی نمائندے یا ارکان اس تحریک پر تین سے سات روز کے اندر ووٹنگ کریں گے اور یہ اختیار سپیکر قومی اسمبلی کے پاس ہے کہ وہ اس کے بعد آئندہ اجلاس کب طلب کرتے ہیں۔
عمران خان کا آج مانسہرہ میں جلسہ
،تصویر کا ذریعہPTI
حکمراں جماعت تحریک انصاف آج مانسہرہ میں جلسہ کر رہی ہے جہاں وزیر اعظم عمران خان کا خطاب متوقع ہے۔
خیال رہے کہ عمران خان اور دیگر حکومتی عہدیداران کو خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے سے قبل جلسوں میں شرکت پر الیکشن کمیشن نے نوٹس جاری کیے تھے اور طلب کر رکھا ہے۔
اس سلسلے میں عمران خان اور وفاقی وزیر اسد عمر نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع بھی کر رکھا ہے۔
’کیا جے یو آئی کی پالیسی چلے گی یا نون لیگ کی یا پی پی پی کی؟ یہ تو سب چوں چوں کا مربہ ہے جس کا نہ سر ہے نہ پیر‘, وفاقی وزیر فواد چوہدری عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے لیے پراعتماد
،تصویر کا ذریعہGetty Images
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اے آر وائی
پر اینکر کاشف عباسی کے پروگرام پر کہا کہ اگلے 48 گھنٹوں میں اتحادی جماعتوں کی
جانب سے فیصلہ آ جانے کے بعد ہی وہ کوئی حتمی بات کر سکیں گے۔
حالات پر جب ان سے تجزیہ مانگا گیا تو فواد چوہدری کا کہنا
تھا کہ حزب اختلاف کی ٹائمنگ درست نہیں ہے اور انھیں نہیں سمجھ آیا کہ وہ اس وقت
کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
’جون میں بجٹ آنے والا ہے، اس کے بعد ویسے ہی انتخابی مہم
شروع ہو جائے گی، اور یہ عدم اعتماد کے ووٹ کی ٹائمنگ حکومت کے لیے بہت سودمند ثابت
ہوگی کیونکہ اس سے وزیر اعظم کے لیے حمایت میں ایک لہر بنی ہے اور پی ٹی آئی کے
ورکر کو اندازہ ہوا کہ ان کی کمر میں خنجر گھونپا گیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی یا ناکامی، دونوں ہی صورتوں میں جیت
عمران خان کی ہے اور اپوزیشن پھنس گئی ہے۔
’اگلے 48 گھنٹے لگیں گے ہار جیت کی صورتحال تک پہنچنے میں۔ اس
وقت تک اتحادی اپنا ذہن بنا پائیں گے، تو اس سے پہلے حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔‘
فواد چوہدری نے اپوزیشن کے منصوبہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا
کہ ان کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے اور انھیں نہیں معلوم کہ ان کا رہنما کون ہوگا۔
’کیا جے یو آئی کی پالیسی چلے گی یا نون لیگ کی یا پی پی پی
کی؟ یہ تو سب چوں چوں کا مربہ ہے جس کا نہ سر ہے نہ پیر۔‘
کاشف عباسی کے اس سوال پر کہ کیا قبل از انتخابات ہو سکتے
ہیں، وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت انتخابات کے لیے ہر دم تیار ہے اور عدم
اعتماد کی تحریک کی شکست کے بعد ہی وہ اپنا اگلا قدم بتائیں گے۔
انھوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کے
استعفی دینے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، تاہم وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے
مستقبل پر کیے گئے سوال میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر گفت و شنید
ہوئی ہے اور معاملات آگے بڑھیں ہیں لیکن ان کی جماعت کی ساری توجہ 27 مارچ کے جلسے
پر ہے اور اس کے بعد اس بارے میں بات کی جائے گی۔
فواد چوہدری نے زور دیا کہ اپوزیشن کے پاس جانے والے پی ٹی
آئی کے 12 باغی اراکین میں سے سات لوگ دوبارہ پی ٹی آئی سے رابطے میں ہیں اور آخر
میں شاید مشکل سے ایک یا دو ہی رہ جائیں گے جو اپوزیشن کے پاس جائیں گے، اور اس کا
فیصلہ بھی اگلے 48 گھنٹوں میں ہو جائے گا۔
’ہمیں وزارت نہیں چاہیے، مسائل کا حل چاہیے‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان کی اہم سیاسی جماعت متحدہ قومی مومنٹ (پاکستان) کے
رہنما وسیم اختر نے جیو نیوز پر شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے
بتایا کہ ان کی جماعت نے پاکستان پیپلز پارٹی سے ملاقات کے دوران کراچی اور سندھ
کے عوام کے لیے مسائل اور ان کے حل پر بات کی۔
’اچھی ملاقات ہوئی، اچھے ماحول میں ہوئی، ہم نے چیزیں سامنے
رکھیں اور بطور سیاسی جماعت جو ہمارے ساتھ زیادتیاں ہوئی اس کے بارے میں بات سامنے
رکھیں، اور ساتھ ساتھ ان مسائل کا حل بھی سامنے رکھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جو مسائل ہم نے پیش کیے وہ کراچی اور
سندھ کی عوام کے مسئلے ہیں اور اس میں ان کا کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہے، کوئی وزارت
نہیں چاہیے بلکہ مسائل حل کرنے ہیں۔
شاہزیب خانزادہ کے اس سوال پر کہ ان کی جماعت کا جھکاؤ کس
طرف ہے، وسیم اختر کا کہنا تھا کہ ابھی بہت ساری چیزیں باقی ہیں اور انھیں حتمی
شکل دینا ابھی باقی ہے جس کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔
’جھکاؤ اس طرف ہے جو ہمارے عوام سے متعلق مطالبات پر عمل
کرے گا۔ ہمارے جو مسائل ہیں، ہم جانتے ہیں کہ ان میں وقت لگے گا، اور اعتماد کا فقدان
اتنا زیادہ ہے کہ چیزیں ہو نہیں پا رہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی جماعت نے یہ مطالبات پاکستان
تحریک انصاف کے سامنے نہیں رکھے تھے، تو اس پر وسیم اختر کا کہنا تھا کہ وہ ماضی
میں بارہا وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے سامنے یہ مطالبات رکھ چکے ہیں۔
ان کو سب معلوم ہے۔ اور کتنی بار دہرائی جائے بات۔ اگر ایسا
ہوتا تو گذشتہ میٹنگ میں وہ کچھ کہتے، ان کے لوگ ذکر کرتے، وہ ان معاملات پر بات
کرتے۔‘
شہباز شریف کی مائنس تحریک انصاف قومی حکومت کی تجویز، آئینی تصور یا نظریہ ضرورت؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف نے تجویز دی تھی کہ اگر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو پاکستان تحریک انصاف کو شامل کیے بغیر پانچ سال کے لیے قومی حکومت قائم کی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک قومی حکومت بنانی ہو گی جو پانچ سال مل کر، سر جوڑ کر، ملکی مسائل حل کرے۔ اس کے بعد ایک سٹیج سیٹ ہو جائے گا۔‘
ہماری سیاست کے کھیل میں امپائر کا کردار ہمیشہ ہی اہم رہا ہے اور یہ اصطلاح بھی جدید سیاست میں عمران خان صاحب نے ہی روشناس کرائی جو اب زبان زد عام ہے۔ امپائر کی جس اُنگلی کا تقاضا اُنھوں نے 2014 میں کیا اب اُنھیں اسی کے اٹھ جانے کا اندیشہ ہے۔ ذمہ دار وہ خود ہیں یا کوئی اور اس کا فیصلہ تاریخ پر چھوڑتے ہیں۔
میں پیشن گوئی کر رہا ہوں، عدم اعتماد ہم جیتیں گے۔۔ ہم یہ میچ جیتیں گے: عمران خان
،تصویر کا ذریعہGetty Images
’عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ میں آرام سے بیٹھ جاؤں گا۔ دونوں صورتوں میں ان کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ میں پیشن گوئی کر رہا ہوں، عدم اعتماد ہم جیتیں گے۔۔ ہم یہ میچ جیتیں گے۔‘
یہ الفاظ وزیراعظم عمران خان کے تھے جنھوں نے بدھ کو وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں چند صحافیوں سے ملاقات کی۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Google YouTube کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Google YouTube ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔ YouTube کے مواد میں اشتہارات ہو سکتے ہیں۔
YouTube پوسٹ کا اختتام
اگر وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو آنے والے چند ہفتوں میں حکومت میں کیا تبدیلی آ سکتی ہے؟ جواب جانیے ہماری ویڈیو میں۔۔۔
ویڈیو: فرحت جاوید، نیر عباس
تحریکِ عدم اعتماد جمعے کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان کی قومی اسمبلی کا اجلاس جمعے کو 11 بجے طلب کیا گیا ہے۔ جمعرات کو رات گئے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے اجلاس کا جو 15 نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا ہے اس میں وزیر اعظم عمران خان کے حزبِ اختلاف کے 147 ارکان کی جانب سے جمع کروائی گئی تحریک عدم اعتماد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
اجلاس کے ایجنڈے پر تحریکِ عدم اعتماد شامل ہونے کے باوجود پارلیمانی روایات کے مطابق جمعے کو ہونے والا اجلاس تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی خیال زمان کی وفات کی وجہ سے ملتوی کیے جانے کا بھی امکان ہے۔
پارلیمانی روایات کے مطابق کسی بھی رکن اسمبلی کے انتقال کے بعد طلب کیے گئے اجلاس کا پہلا روز فاتحہ کے بعد مزید کارروائی کے بغیر ملتوی کر دیا جاتا ہے۔
تاہم قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ایک رکن نے بی بی سی کی فرحت جاوید کو بتایا ہے کہ جمعے کا اجلاس ملتوی نہیں کیا جائے گا۔
پی ٹی آئی کے ناراض اراکین تاحیات نااہل ہو سکتے ہیں؟
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Google YouTube کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Google YouTube ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔ YouTube کے مواد میں اشتہارات ہو سکتے ہیں۔
YouTube پوسٹ کا اختتام
حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ناراض اراکین کیا تاحیات نا اہل ہو سکتے ہیں؟ اس بارے میں مزید تفصیل جانیے ہماری اس ویڈیو میں۔
ایڈیٹنگ: نیّرعباس
اسلام آباد میں پی ڈی ایم رہنماؤں کی ملاقات میں ’قومی اسمبلی اجلاس سے متعلق حکمتِ عملی پر غور‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔
X پوسٹ کا اختتام
اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی رہائش گاہ پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنماؤں کی ملاقات ہوئی ہے۔
صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ ملاقات میں شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، سعد رفیق، خواجہ آصف اور دیگر رہنما شامل ہیں۔
پیپلز پارٹی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ملاقات میں تحریک عدم اعتماد اور قومی اسمبلی اجلاس سے متعلق حکمت عملی پر غور کیا گیا ہے۔
ملاقات میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ اجلاس جمعے کی صبح دس بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوگا۔
جہانگیر ترین گروپ اور اس کے مطالبات
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کو جہاں وفاق میں تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا ہے وہیں پنجاب میں بھی سیاسی منظرنامے پر ان کی مشکلات کم نہیں ہیں۔
ماضی میں عمران خان کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے جہانگیر ترین کے حامی ارکانِ اسمبلی صوبے کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ہٹانے کے مطالبے سے ہٹنے کو تیار نہیں اور حکومت کی جانب سے رابطوں پر ان کا یہی کہنا ہے کہ 'ہم اپنے مائنس بزدار کے فارمولے پر اب بھی قائم ہیں اور ہم نے انھیں کہا ہے کہ وہ وزیرِ اعلٰی عثمان بزدار کو ہٹائیں پھر باقی معاملات طے ہوں گے۔'
پارٹیاں بدلنے والے ذہن میں رکھیں قبل از وقت انتخابات بھی ہو سکتے ہیں: شیخ رشید
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ جو لوگ پارٹیاں بدل رہے ہیں ان کے ذہن میں یہ بھی ہونا چاہیے کہ پاکستان میں الیکشن جلدی بھی ہو سکتے ہیں۔
اس سے قبل اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پارٹیاں بدلنے سے کوئی عزت ملتی ہے تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ کوئی عزت نہیں ملتی۔
انھوں نے کہا کہ 'ان لوگوں کے ذہن میں یہ بھی ہونا چاہیے کہ پاکستان میں الیکشن جلدی بھی ہو سکتے ہیں اور مجھے اتحادیوں سے پوری امید ہے کہ وہ دو تین دن میں فیصلہ کر لیں گے کیونکہ اتحادی ہمیشہ دیر سے فیصلہ کرتے ہیں۔‘
قوم 27 مارچ کو میرا ساتھ دے اور بتائے کہ ہم نیکی کے ساتھ کھڑے ہیں: عمران خان
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے قوم کے نام اپنے مختصر ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ 'پوری قوم 27 مارچ کو میرا ساتھ دے اور بتائے کہ ہم بدی کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ نیکی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے قوم کو 27 مارچ کے جلسے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ 'قرآن میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ اچھائی کے ساتھ اور برائی کے خلاف کھڑے ہونا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 30 سال سے ڈاکوؤں کا ایک ٹولہ ملک میں کرپشن کر رہا ہے اور ملک کو لوٹ رہا ہے اس نے اکٹھے ہوکر پارلیمانی نمائندوں کی ضمیر کی قیمتیں لگائی ہیں۔ اور کھلے عام خرید و فروخت کی۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'قوم اور جمہوریت کے خلاف جرم ہو رہا ہے اور چوری کے پیسوں سے ارکان اسمبلی کو خریدا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پیغام کی مدد سے مستقبل میں کسی کی جرات نہیں ہوگی کہ ہارس ٹریڈنگ کرے۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔
X پوسٹ کا اختتام
اتحادیوں کی حمایت وزیراعظم کے سرپرائز کا حصہ ہے: فواد چوہدری
،تصویر کا ذریعہGetty Images
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ابھی تک اتحادی حکومت کے ساتھ ہیں اور اتحادیوں کی حمایت بھی اسی سرپرائز کا حصہ ہے جس کا ذکر وزیر اعظم نے کیا تھا۔
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق ریفرنس کی سماعت سے قبل عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ تھا کہ ابھی تک اتحادی جماعتیں حکومت کا حصہ ہیں اور حکومت کا حصہ ہی رہیں گیں۔
انھوں نے وزیر اعظم کے گذشتہ روز دیے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'اتحادیوں کی حمایت بھی اسی سرپرائز کا حصہ جس کا ذکر وزیر اعظم نے کل کیا تھا۔'
انھوں اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے ریفرنس کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ کے خلاف جو مہم چلائی ہے ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔
’رکنِ اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکا نہیں جا سکتا اور ووٹ شمار نہ کیا جانا بھی توہین ہے‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
جہاں ایک جانب سیاسی منظر نامے پر گہما گہمی عروج پر ہے وہاں حکومت کی جانب سے عدالت کا رخ بھی کیا گیا ہے جہاں آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ تحریک عدم اعتماد کے دن تصادم روکنے کے بارے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے بھی درخواست دائر کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے اور بینچ میں چیف جسٹس پاکستان کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
اس حوالے سے ہونے والی آج کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'آئین کا آرٹیکل 63 پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے رکن کے خلاف کارروائی کا طریقہ کار بتاتا ہے اور جب کوئی ووٹ دے گا تو ہی اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ اگر کوئی رکنِ اسمبلی تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر ووٹ ڈالنا چاہتا ہے تو اسے روکا نہیں جا سکتا اور اس کے ووٹ کو شمار نہ کیا جانا بھی توہین ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے میں کسی رکن کی نااہلی کا پورا نظام موجود ہے اور عدالت کے سامنے جو سوال ہے وہ یہ ہے کہ ’ایسے رکن کی نااہلی کی مدت کیا ہو گی؟'
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63 کے مطابق اراکین ناراض ہوں تب بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایسے معاملات ریفرنس کے بجائے پارلیمان میں حل ہونے چاہییں اور عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں جبکہ تمام جماعتیں جمہوری اقدار کی پاسداری کریں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے ناراض ارکان اسمبلی کون ہیں؟
’سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن یا پاکستان بار کونسل کو کسی سیاسی جماعت کا ماتحت نہیں بننا چاہیے‘
،تصویر کا ذریعہEPA
سپریم
کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس سے متعلق جمع
کروائے گئے جواب پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے
کہا ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا جواب پڑھ کر لگتا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کی
ذیلی باڈی ہے۔
سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کی سماعت سے قبل عدالت کے باہر میڈیا
سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن یا پاکستان بار
کونسل کو کسی سیاسی جماعت کی سبسڈری نہیں بننا چاہیے جو یہاں ہوتا نظر آ رہا ہے۔
انھوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پر تنقید کرتے ہوئےکہا کہ
’وکلا تنظیموں کا کام سیاسی جماعتوں کا آلہ کار بننا نہیں اپنی آزادانہ حیثیت
برقرار رکھنا ہے۔‘