|
ونی مجرم بچ کیوں جاتے ہیں؟ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
خون بہا یا بدلہ صلح میں لڑکیوں کو ونی کرنے کے کئی واقعات سامنے آنے پر پولیس نے اب تک دو مقدمات درج کرکے بیس کے قریب افراد کو گرفتار کیا ہے لیکن جن ’ونیوں‘ کی بغاوت نے اس فرسودہ روایت کی طرف توجہ دلائی وہ ابھی تک کارروائی کی منتظر ہیں۔ پاکستان میں حکومت نے اس سال جنوری کے مہینے میں قانون سازی کر کے ونی کو غیر قانونی اور قابل سزا جرم قرار دیا لیکن گیارہ ماہ گزرنے کے باوجود اس قانون پر کوئی عملدارآمد نہ ہوا۔ پھر اچانک سلطان والا میں نو سال قبل ونی قرار دی جانے والی آمنہ نیازی اور ان کی بہنیں ونی ہونے سے انکار کردیا۔ نتیجاً کئی اور واقعات سامنے آتے ہیں اور ساتھ ہی نئے قانون بارے بھی لوگوں کو آگہی حاصل ہوتی ہے لیکن آمنہ اور ان کی بہنوں کے معاملے میں پولیس ابھی تک خاموش ہے۔ حالانکہ ان کے والد جہان خان نیازی بھی قبائلی مخالفت مول لیتے ہوئے ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جہان خان کا کہنا ہے کہ پولیس کو شاید ان کا اور ان کی بیٹیوں کا ونی کی روایت کے خلاف کھل کر بولنا پسند نہیں آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں گرفتار کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ یاد رہے کہ ونی پر پابندی کے قانون کے تحت بدلہ صلح میں رشتے لینے اور دینے والے دونوں فریق قابل مواخذہ ٹھہرائے گئے ہیں۔ جہان خان کہتے ہیں کہ نو سال قبل جب ان کے بھائی اقبال خان کو قتل کے ایک مقدمے میں معافی دلانے کے لیے پنچایت نے اس وقت ان کی تین کم سن بیٹیوں اور دو بھتیجیوں کو مقتول زمان خان کے خاندان میں ونی کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے شدید احتجاج کیا تھا لیکن بندوق کے زور پر انہیں یہ فیصلہ قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ان کہنا ہے کہ اب ان کی بیٹیاں اور بھتیجیاں بالغ ہیں اور ونی ہونے سے انکاری ہیں اور وہ ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ’میں تو قانون کا احترام کر رہا ہوں اور اسے مانتے ہوئے اپنی بیٹیوں کو ونی کرنے سے انکاری ہوں۔ پھر پولیس کیوں میرے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے۔ جو لوگ ونی کے رشتے لینے پر اصرار کررہے ہیں ان کے خلاف مقدمہ درج کیوں نہیں کرتی۔صرف اس لیے کہ وہ بااثر ہیں‘ پانچ کم سن لڑکیوں کو ونی کرنے کا سبب بننے والے قتل کے مقدمے کے مدعی اسلم خان نیازی تھے جو اب بھی پنچایت کے فیصلے پر عملدرآمد کرانا چاہتے ہیں۔ سلطان والا میں اپنے ڈیرے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’ہمارے ہاں لڑکیاں ماں باپ کی طرف سے کیے گئے فیصلوں کو نہ ماننے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔ ماں باپ اگر لولے لنگڑوں سے بھی رشتہ طے کردیں تو وہ خاموش رہتی ہیں۔ لڑکیوں کی کیا جرات ہے کہ وہ انکار کریں‘۔ جب انہیں بتایا گیا کہ لڑکیاں تو کہہ رہی ہیں کہ وہ ونی ہونے کی بجائے خود کشی کرنے کو ترجیح دیں گی تو غصے میں آتے ہوئے اسلم خان نے کہا ’لڑکیاں صرف اپنے بارے سوچ رہی ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے انکار سے دونوں خاندانوں کے دو تین سو افراد جھگڑے کی نذر ہوسکتے ہیں۔ کنبے کے کنبے تباہ ہوجائیں گے‘۔ میانوالی کے ضلعی پولیس افسر زراعت کیانی سے پولیس کی مبینہ خاموشی کے بارے جاننا چاہا تو ان کا کہنا تھا کہ کوئی درخواست دے گا تو کارروائی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ جہان خان گرفتاری کے ڈر سے پولیس کے سامنے نہیں آرہا۔ ’بھئی قانون کے تحت اسے بھی تو گرفتار کرنا ضروری ہے‘۔ پاکستان انسانی حقوق کمیشن کے مقامی اہلکار ایڈووکیٹ خلیل الرحمنٰ نیازی کا خیال تھا کہ سلطان والا کے ونی کیس میں دونوں فریق سماجی طور پر کافی مضبوط ہیں اور اسلم خان وغیرہ کے بااثر سیاسی لوگوں سے بھی اچھے تعلقات ہیں۔ اس لیے پولیس اس معاملے میں اس وقت تک کارروائی نہیں کرے گی جب تک حکومت پولیس کو سختی سے ہدایت نہیں کرتی یا ابا خیل کے واقعے کی طرح سپریم کورٹ آف پاکستان ازخود مداخلت کر کے ونی کے تحت کیے گئے نکاح ختم نہیں کرتی۔ تین برس قبل چھ لڑکیوں کو میانوالی کے علاقے اباخیل میں جرگے کے حکم پر ونی کیے جانے کا نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے پولیس کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس فیصلے پر عملدرآمد رکوائے۔ خلیل الرحمنٰ کا کہنا تھا کہ ونی کے سیاہ دستور کا شکار بہت سے لوگ آمنہ نیازی اور ان کی بہنوں کی طرف سے کیے گئے انکار کے انجام کا انتظار کر رہے ہیں۔’اگر حکومتی ادارے اس معاملے کو خوش اسلوبی سے نبٹاتے ہیں تو اور لوگوں میں بھی انکار کرنے کی جرات پیدا ہوگی، لیکن اگر کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آتا تو ایک دفعہ پھر خاموشی کا راج ہوگا‘۔ | اسی بارے میں ’ونی‘ کا ایک اور شکار01 December, 2004 | پاکستان ’ونی‘ کی شادی پر حالات کشیدہ22 November, 2005 | پاکستان ’ونی، زندہ درگور ہونے والی بات ہے‘24 November, 2005 | پاکستان میانوالی:’ونی کے واقعات میں اضافہ‘28 November, 2005 | پاکستان ونی کے رشتے قانونی نہیں: حکومت29 November, 2005 | پاکستان ونی کے رشتے، مزید نو گرفتاریاں01 December, 2005 | پاکستان | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||