BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
آر ایس ایس کیا ہے
آر ایس ایس کیا ہے
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
وقتِ اشاعت:
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
ونی کے رشتے قانونی نہیں: حکومت
 

 
 
خواتین کی جانب سے مظاہروں کے باجود حکومت جرگوں کے اثر و رسوخ کا خاتمہ نہیں کرپائی ہے
وزیراعظم کی مشیر برائے ترقی خواتین نیلوفر بختیار کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے پنجاب کے شہر میانوالی میں بدلہ صلح یا ونی کی روایت کے تحت طے کیے گئے رشتوں کو کسی بھی صورت میں قانونی یا شرعی قرار دینے یا ان لڑکیوں کی رخصتی روکنے کے لیے ضلعی انتظامیہ کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔

اسلام آباد میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نیلوفر بختیار نے بتایا کہ وزیر اعظم شوکت عزیز نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کارروائی کا حکم دیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت مسلسل ضلعی حکومت سے رابطے میں ہے۔

وزیر اعظم کی مشیر کے مطابق وفاقی حکومت کی ہدایات پر دونوں خاندانوں کے پندرہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر تحقیقات کے بعد اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ نابالغ لڑکیوں کی ونی کے تحت شادی کی گئی ہے تو ان افراد پر مقدمہ چلا کر ان کو سزا دی جائے گی۔

وزیراعظم کی مشیر کے مطابق گزشتہ سال پاکستانی پارلیمان نے غیرت کے نام پر قتل کے بارے میں جو قانون منظور کیا تھا اس میں ونی کا ذکر بھی ہے جس کی سزا دس سال قید تک مقرر کی گئی ہے۔

انیس سو اکیانوے میں سلطان والا کے سدروخیل قبیلے سے تعلق رکھنے والے محمد زمان خان کو قتل کر دیا گیا۔اس قتل کے الزام میں اسی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص محمد اقبال خان کو عدالت کی طرف سے موت کی سزا سنائی گئی جس کے بعد دونوں خاندانوں کی طرف سے مشترکہ طور پر ایک جرگہ بلایا گیا جس نے ملزم اقبال کو قتل معاف کرنے کے عوض اس کے خاندان کی طرف سے مقتول کے خاندان کو پانچ لڑکیوں کا رشتہ دینے کا فیصلہ سنایا۔

جرگے کے فیصلے کے مطابق آٹھ سالہ آسیہ، نو سالہ آمنہ، سات سالہ عابدہ، پانچ سالہ ساجدہ اور سات سالہ فاطمہ کا شرعی نکاح بالترتیب بارہ سالہ شیر عباس، اٹھارہ سالہ خان زمان، اٹھارہ سالہ اکرام اللہ، آٹھ سالہ الیاس خان اور نو سالہ محمد قاسم کے ساتھ کر دیا گیا تھا۔ تاہم ان لڑکیوں نے بالغ ہونے پر نکاح کو قانونی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

ایک اور واقعے میں سن انیس سو اٹھاسی میں محمد نواز عظیم خیل نامی ایک شخص کا بکریاں چوری کرنے کے الزام میں پانچ افراد خضر حیات، محمد زمان، سلطان امیر، علی خان اور امان اللہ نے حملہ کر کے قتل کردیا۔ مقدمہ ابھی زیر سماعت تھا کہ ملزموں نے صلح کی کوششیں شروع کردیں۔

نتیجتاً انیس سو نوے میں مقتول کے خاندان نے اس شرط پر ملزموں کو معاف کردیا کہ وہ تاوان میں ایک لاکھ ستر ہزار روپے اور پانچ لڑکیوں کے رشتے دیں گے۔
ملزموں کے خاندان میں دو لڑکیاں اس وقت بالغ تھیں جبکہ تین کم سن تھیں۔ بالغ لڑکیوں کو فوری طور پر ونی کردیا گیا جبکہ نابالغ لڑکیوں عصمت، تسلیم اور فوزیہ کے شرعی نکاح کردیے گئے۔

اس سے قبل تین سال قبل بھی میانوالی میں اباخیل قبیلے کی چھ لڑکیوں کے نکاح ونی کی رسم کے تحت کیے گئے تھے جنہیں بعد میں مقامی انتظامیہ نے کالعدم قرار دیتے ہوئے لڑکیوں کو برآمد کروا کے ان کے قبیلے کے حوالے کیا تھا۔

مشیر سے جب یہ پوچھا گیا کہ قانون تو موجود ہے تو پھر اس پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوتا تو نیلوفر بختیار نے اس بات کا اعتراف کیا کہ قانون پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ ونی ایک برسوں پرانی فرسودہ رسم ہے جسے ایک رات میں توڑا نہیں جا سکتا۔

 
 
66’ونی‘ کا نیا شکار
سلطان والا: شادی سے انکار، حالات کشیدہ
 
 
66ونی یا زندہ درگور
’ونی‘ کا شکار آمنہ کی بی بی سی سے بات چیت
 
 
66کاری رات اندھاری۔۔
۔۔۔جس میں اک کہاڑی: نئی میوزک ویڈیو
 
 
66غیرت کے نام پر
چھ سال میں چار ہزار افراد سے زائد ہلاک
 
 
اسی بارے میں
غیرت کے نام پر قتل پر فلم
25 November, 2005 | پاکستان
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد