|
میانوالی:’ونی کے واقعات میں اضافہ‘ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
میانوالی میں بدلہ صلح یا ونی کی روایت کے تحت طے کیے گئے رشتوں سے کچھ لڑکیوں کے انکار کے بعد اسی نوعیت کے مزید واقعات سامنے آرہے ہیں لیکن مقامی پولیس مبینہ طور پر ایسے معاملات کو ’باہمی رضا مندی‘ کا نام دے کر دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ونی کی روایت سے بغاوت کا ایک اور واقعہ میانوالی کے علاقے مرمنڈی میں سامنے آیا ہے جہاں تین لڑکیوں نے بالغ ہونے پر قتل کے بدلے تاوان میں طے کیے جانے والے اپنے رشتوں کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سال انیس سو اٹھاسی میں محمد نواز عظیم خیل نامی ایک شخص کو بکریاں چوری کرنے کے الزام میں پانچ افراد خضر حیات، محمد زمان، سلطان امیر، علی خان اور امان اللہ نے حملہ کر کے قتل کردیا۔ مقدمہ ابھی زیر سماعت تھا کہ ملزموں نے صلح کی کوششیں شروع کردیں۔ نتیجاً سال انیس سو نوے میں مقتول کے خاندان نے اس شرط پر ملزموں کو معاف کردیا کہ وہ تاوان میں ایک لاکھ ستر ہزار روپے اور پانچ لڑکیوں کے رشتے دیں گے۔ ملزموں کے خاندان میں دو لڑکیاں اس وقت بالغ تھیں جبکہ تین کم سن تھیں۔ بالغ لڑکیوں کو فوری طور پر ونی کردیا گیا جبکہ نابالغ لڑکیوں عصمت، تسلیم اور فوزیہ کے شرعی نکاح کردیے گئے۔ کچھ روز قبل میانوالی میں پاکستان انسانی حقوق کمیشن کے ایڈووکیٹ خلیل الرحمن نیازی نے دعوی کیا کہ تینوں لڑکیاں بالغ ہونے پر ونی ہونے انکاری ہیں۔ حکام نےاس پر حقیقت حال جاننے کے لیے ڈی ایس پی موسی خیل سرکل اقبال اعوان کو مرمنڈی بھیجا۔ اپنی رپورٹ میں انہوں نے دعوی کیا کہ وہ دونوں خاندانوں، لڑکیوں اور ان کے متوقع شوہروں سے بھی ملے ہیں اور سب ان رشتوں پر راضی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تاہم شادیوں کی تاریخ ابھی طے نہیں ہوئی۔ لیکن ادھر انسانی حقوق کمیشن کے خلیل الرحمن کا کہنا ہے کہ ڈی ایس پی اقبال لڑکیوں سے قطعاً نہیں ملے بلکہ صرف ان کے والدین سے مل کر ’کوئی مسئلہ نہیں‘ کی رپورٹ دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس والے عمومی طور پر خواتین کے بارے ’مردانہ معاشرے‘ کی روایتی سوچ کا اظہار کرتے ہیں اور ان سے ونی جیسے معاملات میں انصاف کی توقع رکھنا بے کار ہے۔ خلیل الرحمن کا مطالبہ تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان ایک عدالتی کمیشن کے ذریعے میانوالی میں پچھلے دس پندرہ سال کے دوران قتل کے ان تمام مقدمات کا جائزہ لے جن کا نتیجہ فریقین کے درمیان صلح کی شکل میں سامنے آیا اور دیکھے کہ صلح کی ’قیمت‘ کیا لی اور دی گئی ہے اور اگر اس کے تحت لڑکیوں کو ونی کیا گیا ہے تو اسے فوری طور پر غیر قانونی قرار دے۔ پنجاب کا نیم قبائلی ضلع میانوالی خاندانی دشمنیوں اور ونی کی روایت کے حوالے خاصا بدنام ہے۔ تاہم انسانی حقوق کمیشن کے مقامی اہلکاروں کے مطابق سلطان والا کے علاقے میں بدلہ صلح میں ونی قرار دی جانے والی تین تعلیم یافتہ بہنوں اور ان کی دو کزنز کی جانب سے حال ہی میں اس روایت کو ماننے سے انکار کے بعد ونی کی جانے والی کئی اور لڑکیوں نے بھی ان سے مدد طلب کی ہے۔ | اسی بارے میں ’ونی‘ کا ایک اور شکار01 December, 2004 | پاکستان ’ونی‘ کی شادی پر حالات کشیدہ22 November, 2005 | پاکستان ’ونی، زندہ درگور ہونے والی بات ہے‘24 November, 2005 | پاکستان | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||