BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
آر ایس ایس کیا ہے
آر ایس ایس کیا ہے
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
وقتِ اشاعت: Thursday, 24 November, 2005, 14:16 GMT 19:16 PST
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
’ونی، زندہ درگور ہونے والی بات ہے‘
 

 
 
’ونی‘ کا شکار آمنہ
’زبردستی کی شادی‘ کی گنجائش نہ تو قانون میں ہے اور نہ ہی مذہب میں
میانوالی میں بدلہ صلح یا ’ونی‘ کی روایت کے تحت طے پانے والی شادی سے انکار کرنے والی ایم اے انگلش کی طالبہ آمنہ کا کہنا ہے کہ تعلیم، شعور اور حکومت کی طاقت سے ہی جاہلانہ رسم و رواج کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

بی بی سی اردو ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے آمنہ نے کہا کہ انہوں نے اور ان کی بہنوں نے زندگی کے تحفظ کی درخواست کر رکھی ہے لیکن ابھی تک حکومت کی طرف سے اس حوالے سے نہ صرف کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی بلکہ ان کے کزنز پر حملہ کرنے والے تمام ملزموں کو بھی ابھی تک گرفتار نہیں جا سکا۔

یاد رہے کہ آمنہ سمیت ونی ہونے والی پانچ لڑکیوں کی طرف سے شادی سے انکار پر ایک ماہ قبل مبینہ طور فریق مخالف نے فائرنگ کر کے ان کے پھوپھی زاد بھائیوں خالد اور حسیب کو شدید زخمی کر دیا تھا۔ آمنہ کا کہنا تھا کہ اس حملہ کا مرکزی ملزم عمران ابھی تک آزاد ہے اور انہیں اور ان کے خاندان کو قتل کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔

 تعلیم ہی فرسودہ روایات کو ختم کرسکتی ہے۔ میانوالی میں ہمارے گاؤں میں دو سکول تو ہیں لیکن پڑھانے کے لیے کوئی نہیں آتا۔ سکولوں میں کلاسیں نہیں لگتیں بلکہ بھیڑ بکریاں باندھی جاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے تعلیم کے لیے نہ تو حکومت سنجیدہ ہے اور نہ ہی کوئی اور۔ اسی لیے ہمارے ابو پڑھانے کے لیے ہمیں قریبی ضلع خوشاب لے آئے
 

آمنہ کا کہنا تھا کہ نو برس قبل انیس سو چھیانوے میں جب انہیں، ان کی دو چھوٹی بہنوں اور چچاؤں کی دو بیٹیوں کو جرگے کے حکم پر ونی کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو ان کی عمر دس سال تھی اور وہ پانچویں جماعت میں زیر تعلیم تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ’ہمیں اس وقت فیصلے کی نوعیت اور اس کے اثرات کا کچھ زیادہ ادراک نہ تھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ ماں بہت روئی تھی۔ بعد میں جب ذرا بڑے ہوئے تو معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔ ہمارے رشتے ہم سے پوچھے بغیر تاوان کے طور پر اس لیے طے کر دیے گئے تھے کہ چچا اقبال پر قتل کا الزام تھا اور دوسرے فریق نے خون بہا کے طور پر لڑکیوں کے رشتے مانگے تھے۔ ہم نے ابو سے احتجاج کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ مجبور تھے۔ انہوں نے کہا کہ اب وہ اپنی بیٹیوں کو اس لیے تعلیم دلوا رہے ہیں تاکہ وہ خود فیصلہ کر سکیں کہ ان کے لیے کیا ٹھیک ہے‘۔

میری زندگی میں تو میری بیٹیاں ونی نہیں ہوں گی: جہان خان نیازی

آمنہ کا کہنا تھا کہ تعلیم اور والد کی حمایت نے ان میں انکار کی ہمت پیدا کی۔ ’ لیکن ہم بہنوں کا یہ فیصلہ تھا کہ اگر گھر والوں نے بھی سپورٹ نہ کیا تو ونی ہونے کی بجائے خود کشی کرنے کو ترجیح دینگی۔ شروع شروع میں ہم بہنیں بھی آپس میں ونی والےمسئلے پر بات کرنے سے کتراتی تھیں لیکن جب سے دوسری طرف سے رخصتی کے لیے دباؤ شروع ہوا تو ہم نے بھی حتمی فیصلہ کر لیا‘۔

آمنہ کی ایک بہن عابدہ نے حال ہی میں ایف ایس سی کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا ہے جبکہ سب سے چھوٹی بہن ساجدہ میٹرک کی طالبہ ہیں۔ ساجدہ کے بارے بتایا گیا ہے کہ گھر میں ونی کے خلاف سب سے مضبوط آواز وہی ہیں۔ چھوٹی اور لاڈلی ہونے کے سبب وہ باپ سے ہر بات منوا لیتی ہیں۔

آمنہ کا کہنا تھا کہ ’زبردستی کی شادی‘ کی گنجائش نہ تو قانون میں ہے اور نہ ہی مذہب میں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ سمجھتی ہیں کہ وہ ’دین‘ کا علم اس مولوی سے زیادہ رکھتی ہیں جس نے کم سنی میں ان کا ’شرعی‘ نکاح پڑھا دیا تھا تو محتاط انداز میں جواب دیتے ہوئے آمنہ نے کہا ’مولوی صاحب کو بھی سمجھ ہونی چاہیے تھی کہ تاوان میں رشتے نہیں دیے جا سکتے۔ ویسے بھی اسلام میں لڑکی کی مرضی کے خلاف شادی نہیں ہوسکتی‘۔

 ہمیں اس وقت فیصلے کی نوعیت اور اس کے اثرات کا کچھ زیادہ ادراک نہ تھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ ماں بہت روئی تھی۔ بعد میں جب ذرا بڑے ہوئے تو معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔
 
آمنہ

ان کا کہنا تھا کہ’ تعلیم ہی فرسودہ روایات کو ختم کرسکتی ہے۔ میانوالی میں ہمارے گاؤں میں دو سکول تو ہیں لیکن پڑھانے کے لیے کوئی نہیں آتا۔ سکولوں میں کلاسیں نہیں لگتیں بلکہ بھیڑ بکریاں باندھی جاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے تعلیم کے لیے نہ تو حکومت سنجیدہ ہے اور نہ ہی کوئی اور۔ اسی لیے ہمارے ابو پڑھانے کے لیے ہمیں قریبی ضلع خوشاب لے آئے‘۔

آمنہ کا کہنا تھا کہ ان کو اور ان کے خاندان کے باقی افراد کی زندگیوں کو شدید خطرہ لاحق ہے لیکن ونی ہونا بھی تو ’زندہ در گور‘ ہونے والی بات ہے۔

آمنہ کے والد جہان خان نیازی ایک سرکاری محکمے میں اکاؤنٹس آفیسر ہیں۔ان سے بات کی گئی تو انہوں نے اپنے اس عزم کو دہرایا کہ ان کی زندگی میں تو ان کی بیٹیاں ونی نہیں ہوں گی۔

ان سے پوچھا گیا کہ نو سال پہلے انہیں یہ احساس نہیں تھا کہ بھائی کو بچانے کے لیے وہ اپنی بیٹیوں کی قربانی دے رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ جرگے نے سوچنے کے لیے انہیں صرف پانچ منٹ دیے تھے اور اس دوران بندوق کے زور پر انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ ونی کے فیصلے کو مان لیں۔

آمنہ کے والد نے بتایا کہ ’ونی کے تحت نکاح پڑھانے والے مولوی عنایت نے بھی کہا کہ جان صرف اس صورت میں بچ سکتی ہے کہ جرگے کا فیصلہ مان لیا جائے۔ بس آپ اسے میری بزدلی کہیں یا وقتی مصلحت کہ میں زیادہ دیر تک مزاحمت نہیں کر سکا‘۔

 
 
اسی بارے میں
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد