|
’ونی‘ کی شادی پر حالات کشیدہ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
نو برس قبل خوں بہا کے طور پر ’ونی‘ کی رسم کے تحت پنجاب کے ضلع میانوالی کے گاؤں سلطان والا میں رشتے میں دی جانے والی پانچ کم سن لڑکیوں نے بالغ ہونے پر رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے انکار کر دیا ہے جس پر علاقے میں امن و امان کی صورتحال کشیدہ بتائی جارہی ہے۔ پولیس نے ’نقص امن‘ کے اندیشے کے تحت دونوں خاندانوں کے سولہ افراد کو گرفتار کیا جنہیں بعد میں عدالت کے حکم پر ضمانتی مچلکے داخل کرانے پر رہا کر دیا گیا ہے۔گرفتار ہونے والے افراد میں سے سات کا تعلق لڑکیوں کے خاندان سے اور نو کا لڑکوں کے خاندان سے تھا۔ تفصیلات کے مطابق اکتوبر انیس سو اکیانوے میں سلطان والا کے سدروخیل قبیلے سے تعلق رکھنے والے محمد زمان خان کو قتل کر دیا گیا۔اس قتل کے الزام میں اسی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص محمد اقبال خان کو عدالت کی طرف سے موت کی سزا سنائی گئی جو بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھی۔ اس پر دونوں خاندانوں کی طرف سے مشترکہ طور پر ایک جرگہ بلایا گیا جس نے ملزم اقبال کو قتل معاف کرنے کے عوض اس کے خاندان کی طرف سے مقتول کے خاندان کو پانچ لڑکیوں کا رشتہ دینے کا فیصلہ سنایا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے آمنہ کے والد جہان خان نیازی کا کہنا تھا کہ نو برس قبل جرگے نے زبردستی اپنا فیصلہ ان پر مسلط کیا تھا جبکہ انہوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ جرگے کے فیصلے کے مطابق آٹھ سالہ آسیہ، نو سالہ آمنہ، سات سالہ عابدہ، پانچ سالہ ساجدہ اور سات سالہ فاطمہ کا شرعی نکاح بالترتیب بارہ سالہ شیر عباس، آٹھارہ سالہ خان زمان، اٹھارہ سالہ اکرام اللہ، آٹھ سالہ الیاس خان اور نو سالہ محمد قاسم کے ساتھ کر دیا گیا تھا۔ رشتے میں دی جانے والی لڑکیاں زیر تعلیم تھیں اور انہوں نے جرگے کے فیصلے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رکھا اور ونی ہونے والی لڑکیوں میں سے آمنہ کے بارے معلوم ہوا ہے کہ وہ خوشاب کے ایک کالج میں انگریزی زبان و ادب میں ایم اے کی طالبہ ہیں جبکہ جب کہ ان لڑکیوں کے ’شوہر‘ نہ صرف ان پڑھ رہے بلکہ اطلاعات کے مطابق ان میں سے کچھ علاقے میں اچھی شہرت کے حامل بھی نہیں۔ بالغ ہونے اور تعلیمی تفاوت پیدا ہوجانے کے سبب لڑکیوں نے ونی کی رسم کے تحت کیے گئے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا اور اپنے والدین کو بھی بتا دیا کہ اگر انہیں زبردستی رخصت کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ خودکشی کر لیں گی۔ اس پر والدین کو بھی اپنی بیٹیوں کی مرضی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور انہوں نے فریق مخالف کو رشتوں کے بدلے اپنی تمام سکنی و زرعی زمین دینے کی پیشکش کی جو کہ مسترد کر دی گئی۔ لڑکیوں کے انکار سے پیدا ہونے والے تنازعے کے نتیجے میں ’متوقع‘ دولہوں نے مبینہ طور کچھ ہفتے قبل دوسرے فریق کے دو افراد خالد محمود اور حسیب اللہ کو فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا۔ تاہم پولیس نے نقص امن کے تحت دونوں فریقین کے جن سولہ افراد کو گرفتار کیا ان میں مضروب خالد اور حسیب بھی شامل تھے۔ ونا کا شکار آمنہ کے والد کا کہنا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی بیٹیوں کی مرضی کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہونے دیں گے۔ تاہم انہوں نے اپنے خاندان کی زندگیوں کے بارے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت اور سپریم کورٹ آف پاکستان سے تحفظ کی درخواست کی۔ میانوالی سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل نیک محمد خان کا کہنا تھا کہ سلطان والا میں کافی کشیدگی پائی جاتی ہے اور دونوں فریق مورچہ بند ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسری طرف پولیس اس واقعہ کو صرف ’امن و امان‘ کے ایک مسئلے کے طور پر لے رہی ہے جبکہ یہ لڑکیوں کے بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرے۔ تین برس قبل بھی میانوالی میں ونی کا ایک واقعہ اخبارات کی شہ سرخیوں کا موضوع بنا تھا جس کے بعد حکومت نے قانون سازی کر کے ’تاوان‘ کے طور پر زبردستی کی جانے والی شادیوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا لیکن عملدرآمد نہ ہونے کے باعث ونی کے واقعات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ |
اسی بارے میں ’ونی‘ کا ایک اور شکار01 December, 2004 | پاکستان وٹہ سٹہ کی شادی بھی جرم ہوگی21 October, 2004 | پاکستان | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||