BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
آر ایس ایس کیا ہے
آر ایس ایس کیا ہے
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
وقتِ اشاعت: Thursday, 01 December, 2005, 22:20 GMT 03:20 PST
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
ونی کے رشتے، مزید نو گرفتاریاں
 

 
 
پولیس کا کہنا ہے کہ رشتے لڑکیوں کی مرضی سے ہوئے لیکن لڑکیاں انکار کرتی ہیں
پولیس نے میانوالی شہر سے پچیس کلومیٹر دور واقع مرمنڈی گاؤں میں خون بہا یا بدلہ صلح میں ’ونی‘ کی روایت کے تحت رشتے کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کرکے نو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

ونی کی روایت کو حال ہی میں غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے اور اس جرم کی کم سے کم سزا تین سال جبکہ زیادہ سے زیادہ دس سال قید با مشقت مقرر کی گئی ہے۔

گرفتار ہونے والوں میں ونی کی جانے والی لڑکیوں کے باپ، ان کے متوقع دولہے اور ان کے والد اور پنچایت کے دو کرتا دھرتا افراد شامل ہیں۔

مرمنڈی میں ایک پنچایت نے انیس سو نوے میں قتل کے ایک تنازعے میں صلح کی خاطر ملزم فریق کو پابند کیا تھا کہ وہ مقتول کے خاندان میں اپنی پانچ بیٹیاں ونی کرے گا۔

ونی قرار دی جانے والی پانچ میں سے دو لڑکیاں اس وقت بالغ جبکہ تین نا بالغ تھیں۔ بالغ لڑکیوں کو فوری طور پر ونی کر دیا گیا جبکہ نابالغ لڑکیوں کے ’شرعی نکاح‘ پڑھا دیئےگئے۔ بالغ ہونے پر لڑکیوں نے ونی ہونے سے انکار کیا اور انسانی حقوق کے لیئے کام کرنے والے کچھ سماجی کارکنوں نے یہ بات حکومت تک پہنچا دی۔

پولیس حکام نے اس اطلاع پر موسیٰ خیل پولیس سرکل کے انچارج ڈی ایس پی ملک اقبال اعوان کو لڑکیوں کی مرضی جاننے کے لیئے مرمنڈی بھیجا۔ ڈی ایس پی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ لڑکیاں ان رشتوں پر خوش ہیں اس لیئے کوئی تادیبی کاروائی نہیں ہوسکتی۔

لیکن ونی قرار دی جانے والی ایک لڑکی تسلیم بی بی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سے بیان لینے کوئی پولیس والا نہیں آیا۔ تسلیم کا کہنا تھا کہ وہ ونی ہونے کی بجائے مرنے کو ترجیح دے گی۔ تسلیم کے والد محمد زمان خان نے بتایا کہ پولیس والے لڑکیوں سے منسوب ایک تحریر شدہ بیان لائے تھے کہ ’رشتے ہماری مرضی سے طے کیئے گئے ہیں‘۔لیکن لڑکیوں نے اس بیان کی تصدیق کرنے سے انکار کردیا جس پر پولیس والوں نے مبینہ طور پر ایک لڑکے سے بیانات پر انگوٹھے لگوا کر کہہ دیا کہ لڑکیوں نے رشتوں کے حق میں بیان دیا ہے۔محمد زمان اور ان کے بھائیوں سلطان خان اور خضر حیات کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو پنچایت کے دباؤ پر ونی کیا تھا لیکن اگر حکومت یہ ’رشتے‘ ختم کرا دے تو انہیں خوشی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ بصورت دیگر انہیں رواج کے مطابق بیٹیوں کو ونی کرنا پڑے گا۔

بدھ کے روز میانوالی کے ضلعی پولیس افسر زراعت کیانی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے مرمنڈی کے کیس کے بارے ڈی ایس پی اقبال اعوان کی طرف سے کی گئی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’لڑکیاں خوش ہیں‘ اور وہیں شادی کرنا چاہتی ہیں جہاں ان کے ماں باپ نے طے کی ہیں۔

انہیں جب تسلیم بی بی کے بیان کا حوالہ دیا گیا تو انہوں نے ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ماتحت غلط رپورٹ دے ہی نہیں سکتے۔ انہوں تسلیم، فوزیہ اور عصمت کے بیانات اور ’انگوٹھوں کے نشان‘ بھی دکھائے جو بظاہر ایک ہی ہاتھ سے لکھے ہوئے تھے۔ تاہم جمعرات کے روز اسی معاملے میں اچانک نو افراد کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات تین سو دس (اے) اور ایک سو نو کے تحت مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

لڑکیوں کے والدین کا کہنا تھا کہ پولیس پنچایت کے بااثر ارکان کی پشت پناہی کرتی ہے اور غریبوں کو دباتی ہے۔ میانوالی پولیس نے لڑکیوں کو ونی کرنے پر مقدمہ درج کرکے ان میں سے ہر ایک کے والد سمیت نو افراد کوگرفتار کر لیا ہے لیکن غلط رپورٹ دینے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف ابھی تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔

میانوالی میں ونی پر پابندی کے قانون کے تحت درج ہونے والا یہ دوسرا مقدمہ ہے۔ اس سے پہلے چند روز قبل واں بھچراں کے علاقے میں اسی قانون کے تحت بارہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

 
 
اسی بارے میں
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد