یہ لائیو کوریج اب ختم ہو رہی ہے۔۔۔

،تصویر کا ذریعہReuters
یوکرین میں روسی مداخلت سے متعلق اس لائیو کوریج کو یہیں ختم کیا جا رہا ہے۔
اس تنازع سے متعلق مزید معلومات کے لیے آپ ہمارے نئے صفحے پر آسکتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق یوکرینی دارالحکومت کے قریب ایک علاقے میں روسی افواج کی شیلنگ سے ’ایک ہی خاندان کے تین افراد‘ ہلاک ہوگئے ہیں۔ ادھر ماریوپل کی سٹی کونسل کا کہنا ہے کہ اس جنگ زدہ شہر میں سیزفائر اور شہریوں کے انخلا کا عمل معطل ہوگیا ہے۔

،تصویر کا ذریعہReuters
یوکرین میں روسی مداخلت سے متعلق اس لائیو کوریج کو یہیں ختم کیا جا رہا ہے۔
اس تنازع سے متعلق مزید معلومات کے لیے آپ ہمارے نئے صفحے پر آسکتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہEPA
فرانسیسی صدر کی سرکاری رہائش گاہ الیزے پیلس کے مطابق ٹیلیفونک رابطے میں صدر میکخواں نے اپنے روسی ہم منصب پوتن سے روسی حملہ ختم کرنے اور یوکرین کے جوہری مقامات کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ خیال رہے کہ کچھ روز قبل روسی شیلنگ کے نتیجے میں یوکرین کے ایک جوہری پلانٹ پر آگ لگ گئی تھی۔
اس بیان کے مطابق پوتن نے میکخواں کو بتایا کہ روس جوہری تنصیبات پر حملے نہیں کر رہا اور یہ کہ روس اپنے مقاصد ’مذاکرات یا جنگ سے‘ حاصل کر لے گا۔
ادھر کریملن کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق پوتن نے جوہری پلانٹ کے واقعے کا قصوروار یوکرین کو ٹھہرایا ہے۔
کریملن کے مطابق روسی اور یوکرینی حکام مل کر اس مقام کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں جبکہ تابکاری کی سطح معمول کے مطابق ہے۔
پوتن نے یہ بھی کہا ہے کہ یوکرین کے شہروں میں انخلا کا عمل اس لیے متاثر ہوا ہے کیونکہ ’یوکرینی قوم پرست‘ لوگوں کو نکلنے سے روک رہے ہیں اور عارضی سیزفائر کے ذریعے اپنی پوزیشن مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔
یوکرین نے کہا ہے کہ روسی شیلنگ سنیچر اور اتوار کو سیزفائر کے دوران بھی جاری رہی ہے۔

،تصویر کا ذریعہReuters
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے روسی حملے کے آغاز کے بعد سے یوکرین میں شہری ہلاکتوں کی تصدیق شدہ تعداد کم از کم 364 بتائی ہے، جن میں 25 بچے شامل ہیں اور اس کے علاوہ قریب 759 زخمی ہوئے ہیں۔
تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اصل اعداد و شمار اس سے ’کہیں زیادہ‘ ہوسکتے ہیں۔
اس کا کہنا ہے کہ ’زیادہ تر شہری ہلاکتیں دھماکہ خیز ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے ہوئی ہیں جن کے اثر میں وسیع علاقہ آتا ہے، جیسے ملٹی لانچ راکٹ سسٹم اور توپ خانوں سے گولہ باری یا میزائل اور فضائی حملے۔‘
برطانوی فوج کے سینیئر اہلکاروں کو یہ خدشہ ہے کہ ان کے بعض دستے (ریگولر یا ریزو) یوکرین میں جاری جنگ میں شامل ہوسکتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے برطانوی چیف آف ڈیفنس پیپل لیفٹیننٹ جنرل جیمز سوئفٹ نے ایک پیغام میں زور دیا ہے کہ فوجی حکام کو وہاں جانے کی ’اجازت نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا کوئی خدشہ سامنے آتا ہے کہ دستے یوکرین جانے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس معاملے کی اطلاع فوری سروس پولیس کو دی جائے۔
پیغام میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر برطانوی فوجی یوکرین گئے تو وہ نہ صرف اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں گے بلکہ روس کو یہ تاثر بھی جائے گا کہ برطانیہ دستے بھیج کر لڑائی میں شریک ہو رہا ہے۔
چیف آف ڈیفنس سٹاف ایڈمرل سر ٹونی رڈکن نے بی بی سی کو بتایا کہ فوجیوں کا ایسا کوئی فیصلہ ’غیر قانونی ہوگا اور اس سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔‘
وزارت دفاع کو یقین ہے کہ اب تک کوئی بھی برطانوی فوجی یوکرین میں لڑنے کے لیے نہیں گئے ہیں۔ تاہم ان کے لیے ریزو فوجیوں پر نظر رکھنا مشکل ہوگا جو متبادل نوکریاں کرتے ہیں۔

روسی خبر رساں ادارے انٹرفکس نے وزارت داخلہ کے حوالے سے کہا ہے کہ اطلاعات کے مطابق روس میں آج 3500 کے قریب جنگ مخالف مظاہرین کو زیرِحراست لیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق:
انسانی حقوق کی تنظیم او وی ڈی انفو کی ویب سائٹ کے مطابق یوکرین میں مداخلت کے بعد سے روس میں 10 ہزار سے زیادہ جنگ مخالف مظاہرین گرفتار ہوچکے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہEPA
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے متنبہ کیا ہے کہ روسی افواج جنوبی شہر اوڈیسا پر بمباری کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق شہر میں متعدد فوجی چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں تاہم سڑکوں پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔
بحیرۂ اسود کے قریب اس تاریخی ساحلی شہر میں قریب 10 لاکھ شہری رہائش پذیر ہیں۔ یہ شہر مولدووا کی سرحد اور روسی حمایت یافتہ باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے ٹرانزنسٹریا کے قریب ہے۔
روسی افواج نے جنوبی یوکرین میں مداخلت کے بعد سے کافی پیش قدمی کی ہے۔ مگر اب اس شہر سے ایک لاکھ سے زیادہ لوگ فرار ہوچکے ہیں۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ یہ شہر ’لڑائی کے لیے تیار ہے۔‘
’یہ (حملہ) کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ آپ اس کے لیے کبھی تیار نہیں ہوسکتے۔‘

،تصویر کا ذریعہReuters
فرانسیسی صدر کے دفتر کا کہنا ہے کہ ایمانویل میکخواں اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن کے درمیان ایک گھنٹے اور 45 منٹ طویل فون پر بات چیت ہوئی ہے۔
اس فون کال سے متعلق معلومات جاری نہیں کی گئیں تاہم ایک فرانسیسی اہلکار نے بتایا تھا کہ جمعرات کو دونوں رہنماؤں کے درمیان بات چیت سے میکخواں کو یہ تاثر ملا تھا کہ پوتن پورے یوکرین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔
میکخواں دنیا نے ان متعدد رہنماؤں میں سے ہیں جنھوں نے یوکرین میں سیزفائر کے لیے پوتن سے بات چیت کی ہے۔
اتوار کو پوتن نے ترک صدر اردوغان سے بات چیت کی تھی۔ اردوغان نے ان سے فوری طور پر ’ظلم کے خاتمے‘ کا مطالبہ کیا تھا۔
یوکرین کے شہر ماریوپل کی سٹی کونسل کا کہنا ہے کہ اس جنگ زدہ علاقے میں سیزفائر اور شہریوں کے انخلا کا عمل معطل ہوگیا ہے۔
دن کے آغاز میں انھوں نے جنگ بندی اور انخلا کی کوششوں کا اعلان کیا تھا۔
ماریوپل کے حکام کا کہنا ہے کہ روسی شیلنگ سے شہریوں کا محفوظ انخلا ’ناممکن ہوگیا ہے۔‘
شہر میں گذشتہ پانچ روز سے پانی، بجلی اور نکاسی آب کی سہولیات معطل ہیں جبکہ خوراک بھی تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔

،تصویر کا ذریعہReuters
یوکرین کے دارالحکومت کیئو کے جنوب مغرب میں واقع گاؤں ارپن میں روسی بمباری کی وجہ سے شہری وہاں سے نکلنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق روسی افواج نے وہاں ایک پُل کو تباہ کیا ہے جس کی مدد سے شہری فرار ہو رہے تھے۔ تاہم اس شیلنگ کے دوران کم از کم تین یوکرینی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک ہی خاندان کے تین لوگ شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہریوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ یوکرینی فوجیوں کی مدد سے پُل پار کر رہے تھے۔
یہاں سے موصول ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خوفزدہ شہری کس طرح ارپن سے نکلنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہReuters
فلاحی تنظیم انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ یوکرین کے جنوب مشرقی شہر ماریوپل، جو روسی افواج کے گھیرے میں ہے، میں شہریوں کے انخلا کا عمل رُک کیا ہے۔
یوکرینی اور روسی افواج نے جنگ بندی کی ناکامی کا قصوروار ایک دوسرے کو ٹھہرایا ہے جس کی بدولت اس جنگ زدہ علاقے سے شہریوں کا انخلا معطل ہوگیا ہے۔
یاد رہے کہ دونوں ملکوں نے مذاکرات کے بعد متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں کی بحالی پر اتفاق کیا تھا۔

،تصویر کا ذریعہEPA
خبر رساں ادارے انٹرفکس کے مطابق یوکرینی وزیر صحت کا کہنا ہے کہ روسی دستوں نے اپنی فوجی کارروائیوں کی بدولت یوکرین میں 34 ہسپتالوں میں کام معطل کردیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ روسی دستوں نے بعض ہسپتال تباہ کر دیے ہیں جبکہ کچھ میں پانی و بجلی کی ترسیل متاثر ہوئی ہے۔
انھوں نے اسے ’جنیوا کنونشن کی ایک اور خلاف ورزی‘ قرار دیا ہے کیونکہ ’مسلح لڑائیوں میں طبی عملے اور ہسپتالوں کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔‘
روس یوکرین تنازع پر اسرائیل کی ثالثی کی پیشکش اور تین ہزار امریکی شہریوں کا یوکرین جا کر لڑنے کا فیصلہ۔۔۔
روس یوکرین جنگ پر مزید جانیے ہماری ساتھی فرحت جاوید اور آسیہ انصر سے۔۔۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Google YouTube کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Google YouTube ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
YouTube پوسٹ کا اختتام
برطانوی دفاعی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ روسی فوجی یوکرین میں جنگ کے لیے تیار نہیں تھے۔
ذرائع نے یہ کہا کہ ’ان (فوجیوں) کا یہ خیال تھا کہ وہ جنگ کی تیاری نہیں بلکہ فوجی مشقیں کر رہے ہیں۔‘
برطانوی دفاعی ذرائع نے یہ بھی کہا کہ ’صدر پوتن نے سوچا کہ ان کے پاس وہ فوج ہے جو انھوں نے ماسکو میں ہونے والی سالانہ پریڈ میں دیکھی تھی‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ’پریڈ گراؤنڈ میں موجود فوج جنگ کے لیے تیار نہیں تھی۔‘
اس سے قبل اس ہفتے کے آغاز میں برطانوی سیکرٹری دفاع نے روسی صدر پوتن پر اپنے فوجیوں کو دھوکہ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔
برطانوی سیکرٹری دفاع نے یہ بھی کہا تھا کہ ’روسی افواج کو ایسی جگہ پر چھوڑ دیا گیا ہے جہاں ’ممکنہ طور ہر ہزاروں کی موت ہو سکتی ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہEPA
یوکرین کے صدر ولادیمر زیلنسکی نے کہا ہے کہ دارالحکومت کیئو کے مغرب میں واقع شہر وینتسیا کا ایئرپورٹ روسی راکٹس کی بمباری کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
واضح رہے کہ روس کے یوکرین پر حملے کا آج گیارھواں روز ہے۔
جیسا کے ہم نے آپ کو پہلے بھی بتایا ہے کہ یوکرین کے دارالحکومت کیئو سے 20 کلومیٹر شمال مغرب میں واقعہ قصبہ ارپن فضائی بمباری سے شدید متاثر ہوا ہے۔
شہری انتہائی افراتفری کے عالم میں اس علاقے سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا ذریعہEPA
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے ترک صدر رجب طیب اردوغان کو بتایا ہے کہ روس یوکرین میں اپنا فوجی آپریشن اس وقت ختم کرے گا جب یوکرین لڑنا بند کر دے گا اور ماسکو کے مطالبات مان لیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ روس دعویٰ کرتا ہے کہ یوکرین پر اس کا حملہ ایک خصوصی فوجی آپریشن ہے، جس کا مقصد یوکرین میں جاری ’فوجی سرگرمیوں‘ کو ختم کرنا ہے۔
کریملن سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق روسی صدر نے رجب طیب اردوغان سے ٹیلیفونک بات چیت میں یہ بھی کہا کہ یوکرین کے مذاکرات کار مزید مثبت انداز اپنائیں۔
دوسری جانب رجب طیب اردوغان کے دفتر نے کہا کہ ترک صدر نے فوری طور پر جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔
یوکرین کے دارالحکومت کیئو سے 20 کلومیٹر شمال مغرب میں واقعہ قصبہ ارپن روس اور یوکرین کے درمیان جاری لڑائی میں اہم مرکز بنا ہوا ہے۔
اس علاقے کی عمارتیں اور سڑکیں فضائی بمباری سے شدید متاثر ہوئی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق یوکرینی افواج نے روسی پیشقدمی روکنے کے لیے یہاں موجود پل کو بھی اڑا دیا ہے۔
سنیچر کے روز اس علاقے سے کچھ تصاویر سامنے آئی ہیں، جو یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا ذریعہReuters
مانیٹرنگ گروپ او وی ڈی انفو کے مطابق روس کے 21 شہروں میں جنگ مخالف مظاہروں میں 600 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
او وی ڈی انفو نے مقامی میڈیا کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ روس کے شہر نووسیبرسک سے 200 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے۔
او وی ڈی انفو کے مطابق یوکرین پر روس کے حملے کے بعد گیارہ دن میں اب تک تقریباً آٹھ ہزار افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا ذریعہFRANCO ORIGLIA
مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے کہا ہے کہ یوکرین تنازعہ ’کوئی فوجی آپریشن نہیں بلکہ جنگ ہے۔‘
پوپ فرانسس نے یہ بھی کہا ہے کہ یوکرین ’شہدا کا ملک ہے‘ جہاں ’آنسوؤں اور خون کے دریا بہہ‘ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے پوپ فرانس نے اس تنازعے کے ختم ہونے پر زور دیا تھا۔