|
برسوں بعد کشمیریوں کے رابطے | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بھارتی حکومت نے اپنے اور پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر کے درمیان ٹیلی فون رابطے بحال کر دیے ہیں۔ رابطے کی اس بحالی کے بعد لوگ اس قابل ہو سکے ہیں کہ اپنے رشتہ داروں سے بات کر سکیں۔ پاکستان اور بھارت کے زیرِ انتظام کمشیر کے درمیان ٹیلی فون کی سروس پندرہ سال قبل اس وقت معطل کر دی گئی تھی جب کشمیریوں نے بھارت کی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے۔ دونوں ممالک ان دنوں لائن آف کنٹرول ( ایل او سی) کو کھولنے پر بھی غور کر رہے ہیں جس سے دونوں اطراف کے خاندانوں کو آنے کی اجازت ہو گی۔ لائن آف کنٹرول نےاس متنازعہ علاقے کو تقسیم کر رکھا ہے۔ اس قیامت خیز زلزلے کے نتیجے میں حکام چالیس ہزار سے زائد افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر رہے ہیں۔ جموں کے مختار احمد وہ پہلےشخص تھے جنہوں نے پاکستان کے زیر ِانتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں اپنے خاندان کے افراد کے حالات معلوم کیے اور انہیں پتہ چلا کہ ان کے خاندان کے سترہ افراد اس زلزلے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ بھارت نےاس حوالے سے جموں، سری نگر، ٹنگڈار اور اڑی میں چار سینٹر قائم کیےہیں۔ جہاں مفت ٹیلی فون کال کی سہولت دی جا رہی ہے۔ حکومت کے اس اقدام کا کشمیریوں نے خیر مقدم کیاہے۔ ایک پولیس افسر دویندر سنگھ نے اپنے بیٹے کے دوست سے اسلام آباد میں رابطہ کیا۔ ’علی کیا حال ہے؟ تمھارے ابو اور گھر والے ٹھیک ہیں نا؟‘ انہوں نے یہ جان کر سکون کا سانس لیا کے ان کے بیٹے کا دوست اور اس کے گھر والے خیریت سے ہیں اور ان کا گھر صیحح سلامت ہے۔ لیکن سرینگر آنےوالے باقی نصف درجن لوگ مسٹر علی کی طرح خوش قسمت نہیں تھے۔ان کے رشتہ داروں کے فون یا تو مصروف تھے یا پھر گھنٹی بجتی رہی۔ فاروق احمد اپنی والدہ فاطمہ بیگم اور دو بہنوں کے ساتھ مظفرآباد میں اپنی بہن حفیظہ سے رابطہ ہونے کی امید میں آئے تھے ۔انہیں کراچی میں موجود اپنے رشتہ داروں سے صرف اتنا معلوم ہوا تھا کہ حفیظہ کے سولہ سالہ بیٹے عدیل کا زلزلے میں انتقال ہو گیا ہے۔ لیکن حفیظہ کو ملبے میں سات گھنٹے دبے رہنے کے بعد بچا لیا گیا ۔ غمگین فاطمہ بیگم ٹیلی فون کے پاس ایک گھنٹہ اپنی بیٹی سے رابطہ ہونے کی امید میں بیٹھی رہیں۔ مسٹر احمد کے مطابق وہ سارا وقت عدیل کو یاد کر کے روتی رہیں۔ ان کا نواسہ انہیں ملنے پینتالیس دن کی چھٹی پر کشمیر میں چلنے والی دو طرفہ بس پر گیا تھا اور چھ اکتوبر کو واپس آیا ہی تھا کہ دو دن کے بعد زلزلے کا شکار ہو گیا۔ پاس ہی ایک فون بوتھ میں ثریا ممتاز پریشانی کے عالم میں ایک ایڈریس بک سے مظفرآباد فون کرنے کیلئے نمبر ڈھوندڈ رہی تھیں۔ پاکستان کے شہر راولپنڈی کی رہائشی ثریا ممتاز دو اکتوبر کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے قصبے بارہ مولا میں موجود اپنے رشتہ داروں کو ملنے کے لیے آئی تھیں ۔ ان کا کہنا ہے وہ راولپنڈی اور مظفرآباد میں موجود اپنے رشتہ دوں سے رابطہ نہیں کر پا رہیں۔ ان کے مطابق کے ان کی بہن اور بھائی مظفرآباد میں ہیں اور باقی گھر والے راولپنڈی میں لیکن کسی کا کچھ پتا نہیں چل رہا اور وہ خود کو بہت اکیلا محسوس کر رہی ہیں۔ ٹیلی فون کرنے والے ایک اور شخص امتیاز سرحد پار موجود اپنے کزن کا نمبر متعدد مرتبہ ملا چکے ہیں لیکن ان کا رابطہ نہیں ہو پا رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ رابطہ ہونے تک پولیس کنٹرول روم میں انتظار کریں گے۔ |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||