BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
آر ایس ایس کیا ہے
آر ایس ایس کیا ہے
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
وقتِ اشاعت: Sunday, 16 October, 2005, 02:07 GMT 07:07 PST
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
ظفر کو ہسپتال میں کوئی ملنے نہیں آیا
 

 
 
ظفر خان
ماہرین نفسیات ظفر سے زیادہ سوال نہیں کر رہے
سرینگر کے ایک ہسپتال کے بدبودار اور سیلے وارڈ سے جب ڈاکٹروں نے پانچ سالہ ظفر خان کو جانے کی اجازت دی تو انہیں لے جانے والا کوئی نہیں تھا۔

ظفر خان کشمیر میں زلزلے کے بعد سے اس ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ ہسپتال کے عملے کو اس بچے کے رشتہ داروں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں جسے اڑی کے گاؤں سے زخمی حالت میں جہاز کے ذریعے سرینگر پہنچایا گیا تھا۔

ہسپتال میں موجود ظفر خان کے پڑوسیوں سے اتنا ضرور معلوم ہوا کہ ان کے والد کا زلزلے کے بعد مکان کے ملبے کے نیچے دبنے سے انتقال ہو گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ظفر خان کے دو بھائی ہیں اور والدہ نابینا ہیں جو زیادہ حرکت نہیں کر سکتیں۔

ڈاکٹروں کی بین الاقوامی تنظیم میڈسن سان فرنٹیرز (ایم ایس ایف)سے تعلق رکھنے والے ماہرین نفسیات اب ظفر خان سے زیادہ سوال نہیں کر رہے۔

لوگ ظفر خان کے لیے رنگ برنگے تحفے تحائف لے کر آ رہے ہیں۔

ڈاکٹروں نے ظفر خان کو اس کے گاؤں کے ہی دو بھائیوں امتیاز(12) اور اشتیاق(6) کے ساتھ والا بستر دیا ہے۔

امتیاز اور اشتیاق اپنا گھر گرنے سے زخمی ہوئے تھے۔ امتیاز کی ٹانگ کو فریکچر ہوا تھا جبکہ اشتیاق کے سر پر چوٹ لگی اور اس کو ہسپتال میں پہلے کچھ روز بیہوشی کے دورے پڑتے رہے۔

شیدا بانو
شیدا بانو
زلزلے کے ایک ہفتے کے بعد تینوں لڑکوں کی صحت بہتر ہو رہی ہے اور وہ پلاسٹک کے کھلونوں سے اپنا دل بہلاتے ہیں۔

ایک ماہر نفسیات کے مطابق امتیاز زلزلے سے ہونے والے نقصان کا براہ راست مقابلہ کر رہا ہے۔ وہ سپاٹ لہجے میں کہتا ہے کہ اس کی بہنوں، دوستوں اور بزرگوں کا انتقال ہو گیا ہے۔

ظفر سب سے زیادہ کھلنڈرا ہے۔ نظمیں پڑھتا ہے، گانے گاتا ہے اور آنے والوں کو سیاہ چشما لگا کر متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

'مجھے گھر جانا ہے، گھر زیادہ اچھا ہے' ظفر کمزور سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔

امتیاز اور اشتیاق کچھ دنوں میں اپنے والد کے ساتھ چلے جائیں گے لیکن ظفر کے لیے شاید کوئی نہ ہو جس کے پاس وہ جا سکے۔

ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد بھی ظفر کا کوئی رشتہ دار اس سے ملنے نہیں آیا۔

ایم ایس ایف کے ساتھ کام کرنے والی ایک رضاکار عروج نے کہا کہ ظفر کو اگر کوئی لینے نہ آیا تو اسے کسی یوتھ ہاسٹل میں بھیج دیا جائے گا۔

ظفر زلزلے کے ان بہت سے بچوں میں سے ہے جنہیں انتہائی غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔

قدرت شاید پندرہ سالہ ممتاز احمد اور اس کی سات سالہ بہن روبینہ کے ساتھ اس سے زیادہ ظلم نہیں کر سکتی تھی۔ ان دونوں کا اب ایک دوسرے کے سوا کوئی نہیں۔ دونوں کے والدین چند ماہ پہلے انتقال کر گئے تھے۔

ممتاز اپنی تھوڑی سی زمین پر کھیتی باڑی کر کے اور مزدوری کر کے کام چلا رہا تھا۔ لیکن ان بچوں کو ایک تسلی تھی کہ ان کے سر پر چھت ہے۔ گزشتہ ہفتے زلزلے نے ان کا گھر تباہ کر دیا اور ربینہ کا دایاں ہاتھ بھی شدید زخمی ہوگیا جو بعد میں کاٹنا پڑا۔

مجاز کو امید ہے کہ اس کے والدین ضرور آئیں گے
روبینہ کے آپریشن کے بعد ممتاز نے اسے تسلی دی اور سمجھانے کی کوشش کی کہ کیوں اس کا ہاتھ کاٹنا پڑا ہے۔ اس نے روبینہ کو کاغذ بھی دیا جس پر اس نے کچھ لکھنے کی کوشش کی۔ 'دیکھواس نے بائیں ہاتھ سے لکھنا شروع بھی کر دیا ہے'۔

ممتاز نے اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے بارے میں امید ظاہر کی کہ وہ فارم پر ہی ہوں گے۔

ایک مقامی بنک نے اسے خرچہ کے لیے تئیس ڈالر دیے۔ حکومت نے ظاہر ہے اب تک اس کی کوئی مدد نہیں کی۔

اب وہ اپنی بہن کو ہسپتال سے لے کر کہاں جائے گا؟

'مجھے نہیں معلوم۔ مجھے ایک خیمہ چاہیے۔ دوسری صورت میں مجھے بنکر بنانا پڑے گا۔'

ہسپتال میں دوسرے بچے ارفا لون(10) اور ان کی بہن تبسم(14) خوش قسمت ہیں۔ ان کا ایک عزیز ان کا خیال رکھنے کے لیے ان کے پاس ہے۔

ایک ہفتے کی تلاش کے بعد ان کے ایک عزیز ان تک پہنچ گئے ہیں۔ انہیں اپنی بہن فرزانہ کے بارے میں بھی معلوم ہو گیا ہے جو ایک دوسرے ہسپتال میں زیر علاج ہے اور ان کے والد اس کے پاس ہیں۔

قریب ہی ایک بستر پر شیدا بانو(12) نے زلزلے کے بارے میں ایک تصویر بھی بنائی ہے۔ تصویر میں لرزتا ہوا گھر اور ایک آدمی ہے جس کے اعضا واضح طور پر دکھائے گئے ہیں۔

الطاف اپنی والدہ کے ساتھ
بارہ سالہ ریاض احمد نے اپنے تجربے کے بارے میں اردو میں ایک کتاب لکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بستر ہلنے پر ڈر جاتے ہیں۔

اس افسردہ وارڈ میں زندگی کی ایک کرن ہے۔ سات سالہ محمد الطاف کو جب ملبے سے نکالا گیا تھا وہ کومے میں تھے۔ ان کی والدہ ان کی بہن کے ہلاکت کی وجہ سے سکتے میں تھیں اور اب انہیں اپنا بیٹا ہاتھ سے نکلتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔

زلزلے کے ایک ہفتے کے بعد الطاف حسین مجزانہ طور پر صحتیاب ہو چکے ہیں۔ وہ آنے جانے والوں کو سیلوٹ کرتے ہیں اور ان کی والدہ ان کو خوشی خوشی اپنے خیمے میں لے جا رہی ہیں۔

تاجا کہتی ہیں کہ وہ خوش لوٹ رہی ہیں۔

ظفر خان کو شاید یہ خوشی نصیب نہ ہو۔

 
 
66بےسہاروں کا مستقبل
سہمے ہوئے بچے انتہائی کرب سے گزر رہے ہیں
 
 
66جھٹکے پہ جھٹکا
زلزلے کے بعد کیا ہو رہا ہے: علی احمد خان کاکالم
 
 
66مانسہرہ کی جانب
امدادی کارکنوں کا ریلہ چل پڑا تھا۔۔۔
 
 
اسی بارے میں
 
 
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد