|
زلزلے پر بھارتی عوام کا ردعمل | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
دو امدادی اداروں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ کشمیر میں آنیوالے زلزلے پر بھارتی عوام کی جانب سے کافی کم ابتدائی ردعمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سن دو ہزار ایک میں گجرات زلزلے اور سونامی کے مقابلے میں، اس بار کافی کم لوگوں نے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ سونامی اور گجرات زلزلے کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر عوام نے متاثرین کی حمایت کی تھی۔ لوگوں نے امداد فراہم کی تھی اور بہت سے رضاکار متاثرہ علاقوں کے لئے چل پڑے تھے۔ لیکن کشمیر میں آنیوالے زلزلے کی خبر کے بعد سے بھارتی عوام میں اتنی دلچسپی نہیں دکھائی دی۔ بھارت میں امدادی ادارے آکسفام کے ترجمان پی جے چاکو نے بی بی سی کو بتایا کہ سونامی کے بعد انہیں ہزاروں لوگوں نے فون کرکے مدد کی پیشکش کی تھی۔ لیکن کشمیر میں زلزلے کے بعد صرف دس لوگوں نے انہیں فون کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سونامی کے پہلے ہفتے میں آکسفام کو بغیر اپیل کے لگ بھگ ایک لاکھ ڈالر کی مدد ملی تھی۔ 'امداد سیلاب کی طرح آرہی تھی، لیکن اس بار کوئی دلچسپی نہیں دکھائی دیتی۔'
بھارت میں عالمی امدادی ادارے ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ کے سربراہ عظمت اللہ نے بھی کچھ ایسی ہی بات کی۔ 'سونامی کے دوران میں نے دیکھا کہ لوگ ہمارے ہیڈکوارٹر میں چیک لئے آرہے تھے، لیکن اس بار میں نے ایسا کچھ نہیں دیکھا۔' منگل کے روز سرینگر میں علیحدگی پسند رہنما میرواعظ فاروق نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بھارت میں اس زلزلے کے متاثرین کی جانب کوئی دلچسپی نہیں۔ تاہم اگر عوام کی دلچسپی نہیں ہے تو اس کی وجہ پی جے چاکو کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں ہمدردی کے لیول میں کمی آئی ہوگی۔ دہلی میں پاکستانی سفارتخانے نے عطیات کے لئے ایک خصوصی بینک اکاؤنٹ کھولا ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر اور باقی ملک کے درمیان کم غیررسمی روابط ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان امن عمل کے آغاز سے سیاحت کو فروغ تو ملا ہے لیکن علاقے کے امیج کو سکیورٹی کے خدشات اور جاری شدت پسندی کی وجہ سے دھچکا پہنچا ہے۔
اس بات سے بھی لوگ متاثرہ علاقے میں پہنچنے کے بارے میں سوچ نہیں سکتے کہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں فوج بڑے پیمانے پر تعینات ہے، اور متاثرہ علاقے بھی دور دراز اور مشکل راستوں والے ہیں جہاں لوگ خود ہی نہیں جاسکتے جیساکہ انہوں نے گجرات کے زلزلے کے دوران کیا تھا۔ عظمت اللہ کہتے ہیں: 'گجرات میں آپ کو صرف اتنا کرنا تھا کہ آپ نے کار یا جیپ لیا، اس میں امدادی سامان بھرا اور چل پڑے۔' 'اس علاقے میں کافی فوجی تعینات ہیں۔' انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہوسکتا ہے کہ لوگوں کے اندر رحم دلی یا ہمدردی سے تھک جانے کا عنصر بھی غالب ہو کیوں کہ ذرائع ابلاغ سونامی کے متاثرین کی بےبسی پر کافی توجہ دیتے رہے ہیں۔ بھارتیوں نے بہار میں اور آسام میں بڑے بڑے سیلاب دیکھے۔ عظمت اللہ کا کہنا ہے کہ سیلاب میں اتنے لوگ تو نہیں مرے لیکن بیس ملین لوگ متاثر ہوئے۔ 'بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی رہتی ہے۔' اس بار متاثرہ علاقوں کے بارے میں اطلاع ملنے میں کافی تاخیر بھی ہوئی ہے۔ آکسفام کے پی جے چاکو کہتے ہیں: 'کمشیر میں، آج بھی، یہ واضح نہیں ہے کہ کتنے گاؤں اور کتنے لوگ متاثر ہوئے ہیں۔' وہ کہتے ہیں: 'اب بھی مجموعی تباہی کا اندازہ نہیں ہے۔ اس لئے ہم عوام کے سامنے ایک واضح تصویر نہیں پیش کرپارہے ہیں۔' کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ گزشتہ دو دن عوامی تعطیلات تھیں، اس لئے لوگوں کی ہمدردی کا جذبہ متاثر ہوا ہوگا۔ |
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||