|
راستے کھل گئے، طلباء مدرسے میں | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
اسلام آباد میں رات بھر تناؤ کی فضا کے بعد طلباء مدرسے میں واپس چلے گئے اور بند راستے کھل گئے ہیں اور پولیس بھی ہٹا دی گئی ہے۔ آبپارہ کے علاقے میں لال مسجد رات گئے تک حکومت کی جانب سے کسی ممکنہ کارروائی کی افواہوں کی وجہ سے توجہ کا مرکز بنی رہی۔ حکام نے چالیس طلبا کو حراست میں بھی لیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو لال مسجد میں پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنانے والے طلبا کی مدد سے باز رکھنے کے لیے پکڑا گیا۔ تاہم مسجد کے مہتمم عبدالرشید غازی نے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس کی حراست میں نو طالب علموں کو رہا کیا جائے۔ حکومت اور مسجد کے درمیان کشیدگی کے آغاز کے بعد سے پولیس نے پہلی مرتبہ اتوار کی رات کو کارروائی کرتے ہوئے مسجد کو جانے والی تمام سڑکیں بند کر دی تھیں
حکومت تقریباً چار کلومیٹر کی دوری پر واقع مدرسہ فریدیہ کے طلبہ کو لال مسجد پہنچنے سے روکنے میں بھی کامیاب رہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندے اور اردگرد کے رہائشی افراد کی بڑی تعداد رات گئے تک مسجد کے باہر موجود رہی۔مسجد کے نائب مہتتم عبدالرشید غازی بھی باہر آئے اور صحافیوں سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی کارروائی کی صورت میں ظالم نہیں بلکہ مظلوم بنا پسند کریں گے۔
مدرسے کے طلبہ نے جمعہ کو چار پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے دو کو بعد میں رہا کر دیا گیا تھا تاہم دو ابھی بھی ان کی حراست میں ہیں۔ لال مسجد کے طلبہ کی جانب سے پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنائے جانے کے بعد اتوار کو ایک طرف تو حکومت نے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کارروائی کی دھمکی دی ہے تو دوسری جانب مدرسے کی انتظامیہ نے دو طلبہ کو میڈیا کے سامنے پیش کیا جنہیں بقول ان کے خفیہ ایجنیسوں نے اغوا کیا تھا۔ وفاقی وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مدرسے کی انتظامیہ کی تین چار ماہ سے کارروائیوں کا صبر و تحمل سے جواب دے رہی تھی۔ لیکن اب جو بھی کارروائی کی جائے گی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کی جائے گی۔ تاہم انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ گرفتار افراد کے بارے میں ابتداء میں مسجد کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ان کا ان سے کوئی تعلق نہیں اور نہ لاپتہ افراد کے بارے میں کوئی رپورٹ پولیس کے پاس درج کی۔ انہوں نے واضع کیا کہ حکومت خون خرابہ نہیں چاہتی لیکن انہیں مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسئلے کے حل کے لیے مختلف امکانات پر غور ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو پولیس اہلکار مدرسے کے طلبہ نے خود چھوڑے ہیں انہوں نے نہیں کہا تھا۔ جن طلباء کے بارے میں بتایا گیا کہ انہیں سرکاری اہلکاروں نے پکڑا تھا ان کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے۔ یہ دو بھائی انتیس سالہ حافظ انوار الحق اور ستائیس سالہ اسرار الحق ہیں۔ انوار الحق کا کہنا تھا کہ انہیں ننگا کر کے مارا پیٹا گیا اور رہا کرتے وقت دھمکی دی کہ اگر اس بارے میں مسجد انتظامیہ کو بتایا گیا تو ان کو ان کے بہن بھائیوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ ان دو طلبہ نے بتایا کہ ان سے رہائی کے وقت ایک بیان حلفی پر دستخط بھی لیئے جس میں ان کو جی ایچ کیو کا وزٹ کرتے پکڑنا دکھایا گیا ہے۔ ان دو افراد کے واپس لوٹ آنے کے بعد مدرسے کے مطابق اب ان کے لاپتہ طلبہ کی تعداد چار رہ گئی ہے جبکہ اتنے ہی سی ڈیز نذر آتش کرنے کے الزام میں جیل میں ہیں۔ لاپتہ طلبہ میں عبدالبصیر، عامر، افتخار احمد اور نقیب اللہ شامل ہیں۔ ادھر پولیس کی بھاری تعداد میں پنجاب کے مختلف علاقوں سے اسلام آباد میں آمد سے کسی کارروائی کی خدشات بڑھ گئے تھے۔
مدرسے کے نائب مہتمم عبدالرشید غازی نے کہا کہ ان کے طلبہ کی رہائی کی صورت میں باقی ماندہ دو پولیس اہلکاروں کو بھی رہا کر دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ واقع لال مسجد کے لٹھ بردار طالبعلموں نے یرغمال بنائے گئے اسلام آباد پولیس کے چار اہلکاروں میں سے دو کو سنیچر کے روز رہا کردیا تھا۔ طالبعلموں نے ان کو چھوڑنے کے بدلے میں حکومت سے زیرحراست اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ |
اسی بارے میں لال مسجد: پولیس اہلکار یرغمال18 May, 2007 | پاکستان لال مسجد :مذاکرات ختم16 May, 2007 | پاکستان لال مسجد انتظامیہ سے مذاکرات08 April, 2007 | پاکستان جامعہ حفصہ کے خلاف مظاہرہ23 April, 2007 | پاکستان مدرسہ حفصہ کے خلاف کراچی ریلی15 April, 2007 | پاکستان جامعہ حفصہ مدارس بورڈ سے خارج09 April, 2007 | پاکستان حفصہ کی طالبات کے خلاف مقدمات29 March, 2007 | پاکستان | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||