|
کون آئے گا اور کون جائے گا؟ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
جب سے جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا ہے، ملک میں سیاسی تقسیم اور تضاد کا عمل جاری ہے تو پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر تازہ ترین پیش رفت یعنی آصف زرداری کی رہائی کے بعد کیا توقع کی جائے۔ اگرچے زرداری اس بات کی تردید کر رہے ہیں کہ ان کی رہائی کسی قسم کی ڈیل کا نتیجہ ہے لیکن اس طرح کی افواہیں کچھ عرصے سے گردش کررہی تھیں۔ ملک میں ایک نئے سیاسی اقدام کا پہلا اشارہ اس وقت ملا تھا جب ایک ماہ قبل حکمران مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل مشاہد حسین نے پارلیمینٹ میں تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کی بات کی تھی۔ اب آصف زرداری کی رہائی کے بارے میں مسٹر مشاہد کا کہنا ہے کہ لوگوں کو تنقیدی رویہ پیچھے چھوڑ کر اس طرح کی پیش رفت کو اس کے اپنے میرٹ پر پرکھنا چاہئیے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسٹر زرداری کی رہائی کو صدر جنرل مشرف کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
لیکن اگر موجودہ پاکستانی سیاست میں مصالحت وہ نیا لفظ ہے جو اب ہر کوئی استعمال کررہا ہے تو پھر آصف زرداری مستقبل میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ رہائی کے بعد ان کی پہلی پریس کانفرنس میں ان کے ہمراہ پیپلز پارٹی کا کوئی بھی بڑا لیڈر موجود نہیں تھا۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی پارٹی لیڈران کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ بے نظیر بھٹو اپنے شوہر کو پارٹی معاملات پر کتنا کنٹرول اور سیاسی سطح پر کتنی اہمیت دینا چاہتی ہیں؟
سازشی ساز باز پاکستانی سیاست کا اتنا بنیادی حصہ ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان بھی عدم اعتماد کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ لیکن زیادہ تر سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اصل میں پارٹی کے اندر مسٹر زرداری کا سیاسی رتبہ نہیں بلکہ بطور ایک مذاکرات کار اُن کی صلاحیتیں ان کے مستقبل کے رول کو واضح کریں گی۔ اب کئی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ پاکستان واپس جانے کے بارے میں بے نظیر بھٹو کا موقف اب تک یہ رہا ہے کہ وہ اس لئے پاکستان واپس نہیں آنا چاہتی تھیں کہ اگر وہ اور زرداری دونوں جیل میں ہوں تو بچوں کا خیال کون رکھے گا۔ لیکن اب وہ ایسا کرسکتی ہیں کیونکہ ان کے شوہر آزاد ہیں۔یعنی دوسرے الفاظ میں اب بے نظیر بھٹو پاکستان واپس پہنچ کر سیاسی معاملات میں دوبارہ سے شامل ہوسکتی ہیں۔ لیکن کئی مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کے خلاف جنرل مشرف کی مہم میں اُنہیں ملک میں موجود قدرے سیکولر سیاسی قوتوں سے اتحاد کی ضرورت ہے کیونکہ مذہبی جماعتوں کا اتحاد ایم ایم اے اپنی روایتی پوزیشن سے ایک انچ بھی ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ مبصرین کے مطابق خاص طور پر انڈیا کے ساتھ کشمیر پر جاری بات چیت میں کسی قسم کی پیش رفت کے نتیجے میں جنرل مشرف کو پاکستان میں ایسی سیاسی قوتوں کی سخت ضرورت ہوگی جو ان اہم معاملات میں ان کا ساتھ دے سکیں۔ لیکن پاکستان میں فوج کی سیاست پر نظر رکھنے والے کچھ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ شائد آصف زرداری کی رہائی کے نتیجے میںاتنی بڑی تبدیلیاں رونما نہ ہوں جتنی توقع کی جارہی ہے۔ اور اس سب کے بیچ جنرل مشرف کو شائد یہ جان کی بہت اطمینان مل رہا ہو کہ اب ساری قوم کی توجہ ان کی وردی کے معاملے سے ہٹتی جا رہی ہے۔ |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||