BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
وقتِ اشاعت: Monday, 22 November, 2004, 14:44 GMT 19:44 PST
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
مسٹر ٹن پرسنٹ تا ضمیر کا قیدی
 

 
 
آصف زرداری
پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد آصف زرداری کی مداح ہے اور ان کی یہ شہرت بھی ہے کہ وہ خدمات کا اعتراف کرنا جانتے ہیں۔
صرف نوے کی دہائی میں پاکستان کی تین حکومتیں کرپشن کی وجہ سے تبدیل کی گئی۔ جن میں دو حکومتیں سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی تھیں۔وجہ یہ بتائی گئی کہ ان کے شوہر جنہیں مسٹر ’ٹن پرسنٹ‘ کے نام سے مشہور ہیں، ہر سودے میں مبینہ طور پر کمیشن کھاتے ہیں۔جہاں بھی کرپشن کا ذکر ہوتا وہاں آصف زرداری کا نام ہر خاص و عام کی زبان پر آنا معمول بن گیا۔

پہلی بار انہیں 1990 میں گرفتار کیا گیا اور وہ 1993 تک جیل میں رہے۔ ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات قائم کیے گئے اورسپریم کورٹ میں نگران حکومتوں اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی دو حکومتوں نے تحریری دستاویزات پیش کیں جن میں آصف زرداری پر الزامات عائد کیے گئے کہ وہ قومی خزانے کو لوٹ کر کھا گئے۔

چار نومبر 1996 سے مسلسل جیل کاٹنے والے زرداری پر الزام لگائے گئے کہ انھوں نے نوادرات سے بھرے کنٹینر برطانیہ میں مبینہ طور پر خریدے گئے سرے پیلس کو سجانے کے لیے بھیجے۔

کرپشن کا اتنا شور برپا ہوا کہ بینظیر بھٹوکی دوسری حکومت جانے سے فورا بعد اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے احتساب کمیشن کی بنیاد رکھی جس کا بنیادی مقصد بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کی مبینہ کرپشن کو بے نقاب کرنا تھا۔اس کے علاوہ زرداری کے خلاف بینظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضی بھٹو کےقتل اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس نظام کے قتل میں ملوث ہونے کے مقدمات بھی قائم کیے گئے۔ منشیات کا ایک مقدمہ بھی زرداری کے خلاف درج کیا گیا۔

کرپشن کے جو مقدمات زرداری کے خلاف بنائے گئے ان میں وزیر اعظم ہاؤس میں پولو کےگراؤنڈ کی تعمیر، غیر قانونی طور پر جائیداد بنانے، ٹریکٹرز کی درآمد میں کمیشن کھانے، ایس جی ایس اور کوٹیکنانامی پاور کمپنیوں سے کمیشن لینے، کراچی اسٹیل ملز میں غیر قانونی بھرتیوں، سونے کی غیر قانونی برآمد اور بی ایم ڈبلیو گاڑی کی ڈیوٹی نہ ادا کرنے کا مقدمہ شامل ہے۔

1996 میں سابق صدر فاروق احمد خان لغاری کی حکومت میں احتساب کمیشن کا قیام عمل میں آیا جس کے تحت خصوصی احتساب عدالتیں قائم کی گئیں اور زرداری کے مقدمات ان عدالتوں میں بھیجے گئے۔ 1997 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے احتساب کمیشن ختم کر کے احتساب بیورو قائم کیا جس کی سربراہی اس وقت کے سینیٹر سیف الرحمن کو سونپی گئی۔ سینیٹر سیف الرحمن نے بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے سوئٹزر لینڈ میں موجود مبینہ بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگانے کا دعوی کیا اور لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس قیوم نے 1999میں آصف زرداری کو کرپشن کے الزام میں چودہ سال قید اور سیاست سے نا اہلی کا حکم سنایا۔

مگراسی سال جسٹس قیوم کی مبینہ آڈیو ٹیپس منظر عام پر آئیں جن کے مطابق انھوں نے اس سینیٹر سیف الرحمن کے کہنے پرزرداری اور بینظیر بھٹو کو سزا سنائی۔ سپریم کورٹ نے زرداری کی اپیل پر 2001 میں اس سزا کو کالعدم قرار دیا اور اس مقدمے کی از سر نو سماعت کا حکم سنایا۔ اس کے بعد سے زرداری ایک کے بعد دوسرے مقدمے میں ضمانت پر رہا ہوتے چلے گئے۔

صدر جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے آتے ہی کرپشن کا نعرہ پھر بلند ہوا اور احتساب بیورو کو تحلیل کر کے نیشنل اکاؤنٹ ایبلٹی بیورو قائم کیا گیا۔ مگر سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات کی موجودگی میں ان کو سعودی عرب بھیجے جانے سے نیب کی ساکھ متاثر ہوئی۔ اس کے بعد کئی سیاسی شخصیات، جن کے خلاف کرپشن اور قرضوں کی نادہندگی کے مقدمات بنائے گئے ان کی حکومت میں شمولیت سے کرپشن کا الزام ایک مذاق بن کر رہ گیا اور آصف زرداری کی رہائی کے حق میں آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔

صدر جنرل پرویز مشرف کی تین سالہ فوجی حکومت اور بعد میں سابق وزیراعظم ظفراللہ جمالی، چودھری شجاعت اور اب وزیر اعظم شوکت عزیز کی حکومت نے زرداری کے مقدمات کو سیاسی آلے کے طور پر استعمال کیا اور پیپلز پارٹی سے ڈیل کی افواہوں میں زرداری کی مبینہ کرپشن بالکل ہی پس منظر میں چلی گئی اور ان کے حامیوں نے ان کو ضمیر کے قیدی کی شکل میں سیاسی طور پر ایک مظلوم شخص کے طور پر پیش کیا۔

زرداری جن کے حق میں ایک وقت ان کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی بولنے سے گریزاں تھے ایک طاقتور سیاسی مہرہ بن کر سامنے آئے اور آرمی نے بینظیر بھٹو سے ڈیل کرنے کے لیے آصف زرداری سے بات چیت کا آغاز کیا۔
ان کی رہائی کی خبریں گزشتہ ایک سال سے گردش میں تھیں مگر ہر بار کچھ نہ کچھ ایسا ہو جاتا کہ ان کی رہائی کھٹائی میں پڑ جاتی۔

بالآخر 22 نومبر کو ان کی مسلسل اسیری کے آٹھ سال اور اٹھارہ دنوں کے بعد جنہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔

 
 
اسی بارے میں
 
 
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد