چین کی جاپانی فوج کے ملک سے باہر بڑھتے ہوئے کردار پر تنبیہ

نئے قانون کی روشنی میں اب جاپانی فوجی ملک سے باہر بھی لڑ سکیں گے

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشننئے قانون کی روشنی میں اب جاپانی فوجی ملک سے باہر بھی لڑ سکیں گے

چین نے خبردار کیا ہے کہ جاپانی فوج کے ملکی سرحدوں سے باہر کردار سے متعلق متنازعہ قانون کی منظوری کے بعد جاپان علاقائی امن کو خطرے میں ڈالنے سے اجتناب برتے۔

چین کا کہنا ہے کہ جاپان اپنی فوج کے بیرونِ ملک کردار میں توسیع کے قانون کی منظوری سے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

جاپانی پارلیمان نے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے تقریباً 70 برس کے بعد پہلی مرتبہ فوج کو ملک سے باہر لڑنے کی اجازت دینے کے لیے ایک قانون کی منظوری دی ہے۔

چینی وزارت دفاع نے جاپانی پارلیمان میں مذکورہ قانون کی منظوری کے بعد کہا کہ جاپان کو ’تاریخ سے بڑا سبق‘ سیکھنا چاہیے۔

جاپانی حکومت کا کہنا ہے کہ نئے ملٹری چیلینجز، جیسے چین کی بڑھتی طاقت، سے نمٹنے کے لیے دفاعی پالیسی میں یہ تبدیلیاں بہت اہم ہیں۔

چین اور جاپان کے مابین گذشتہ چند ماہ کے دوران چند جزیروں کے معاملے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ دونوں ممالک ان جزیروں کی ملکیت کے دعویدار ہیں۔

جاپانی حزب اختلاف کی جماعت اس تجویز کی مخالف تھی جس نے اس سے متعلق بل کو روکنے کی کوشش میں خلل ڈالا اور اسی وجہ سے اس قانون پر رائے شماری میں بھی تاخیر ہوئی۔

پارلیمان کے باہر بھی اس کے خلاف مخالفین نے احتجاج کیا۔

جاپانی حکومت ہفتے سے شروع ہونے والی پانچ روز کی تعطیل سے قبل ہی اس بل پر ووٹ چاہتی تھی۔ چونکہ حکومتی اتحاد کو دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہے اس لیے اپوزیشن اپنی تمام کوششوں کے باوجود اس بل کو روکنے میں ناکام رہی۔

ایوان بالا کے صدر مساکی یمازاکی نے کہا کہ اس بل کی حمایت میں 148 ارکان نے ووٹ دیا جبکہ مخالفت میں 90 ووٹ پڑے۔

جاپان کے اخبار 'دی جاپان ٹائمز' کے مطابق اس بل پر تقریباً 20 گھنٹوں تک بحث ہوئی اور بالآخر پارلیمان نے وزیراعظم شنزو آبے کے موقف کو تسلیم کر لیا۔

اس سے متعلق بل کی مخالفت میں جاپان کے مختلف علاقوں میں کافی دنوں سے مظاہرے ہوتے رہے تھے

،تصویر کا ذریعہAP

،تصویر کا کیپشناس سے متعلق بل کی مخالفت میں جاپان کے مختلف علاقوں میں کافی دنوں سے مظاہرے ہوتے رہے تھے

دوسری عالمی جنگ کے بعد بننے والے چاپانی آئین میں ملکی دفاع کے علاوہ کسی بھی بین الاقوامی تنازع کو طاقت کے ذریعے حل کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

مسٹر آبے کی حکومت سکیورٹی کے قانون میں تبدیلی کے لیے اس لیے زور ڈال رہی تھی تاکہ ضرورت پڑنے پر تین شرائط کے پورا ہونے پر بیرون ملک بھی فوج کو استعمال کیا جا سکے۔

وہ تین شرطیں یہ ہیں جن کی صورت میں جاپان بیرون ملک اپنی فوج کا استعمال کر سکتا ہے۔

1 جب جاپان پر حملہ ہو یا پھر اس کے کسی ایسے قریبی اتحادی پر حملہ کیا گیا ہو جس سے جاپان کے تحفظ کو خطرہ لاحق ہوجائے اور واضح طور پر عوام کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے۔

2 جب حملے کو روکنے کے لیے کوئی مناسب متبادل نہ ہو جس سے جاپان اور اس کے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

3 طاقت کا استعمال کم سے کم کیا جائے گا۔

اس سے متعلق بل کے خلاف کافی آوازیں اٹھیں اور جاپان بھر میں مظاہرے بھی ہوئے۔

اس نئے قانون کے تحت آئین میں تبدیلی کے بجائے اس کے معنی و مطالب میں تبدیلی کی گئی ہے۔ لیکن اس پر نکتہ چینی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون نہ صرف جاپانی آئین کے خلاف ہے بلکہ اس سے جاپان امریکہ کی قیادت میں ہونی والی غیر ضروری بیرونی جنگوں کا حصہ بن سکتا ہے۔

جمعے کے روز ڈیموکریٹک پارٹی کے رہمنا اکیرا گنجی نے پارلیمان میں بحث کے دوران کہا ’ہمیں ایسی خطرناک حکومت کو اس طرح سے چلتے رہنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ سکیورٹی سے متعلق وزیراعظم آبے کا بل ہمارے قانونی فریم ورک کے لیے ایک خطرہ ہے۔‘

لیکن اس کے حامی، جنہیں امریکی سرپرستی حاصل ہے، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ جاپان اور اس کے علاقائی اتحادیوں کے دفاع کے لیے بہت ضروری ہے اور اس سے جاپان کو عالمی سطح پر امن کے قیام میں ایک بڑا کردار ادا کر نے کا موقع مل سکے گا۔