شام جانے والی پہلی برطانوی لڑکی کی شناخت ہو گئی

(دائیں سے بائیں) شمیمہ بیگم، عامرہ عباسی اور خدیجہ سلطانہ فروری میں برطانیہ سے شام کے لیے روانہ ہوئیں
،تصویر کا کیپشن(دائیں سے بائیں) شمیمہ بیگم، عامرہ عباسی اور خدیجہ سلطانہ فروری میں برطانیہ سے شام کے لیے روانہ ہوئیں

دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرنے لیے شام کا سفر کرنے والی برطانوی طالبات میں سب سے پہلے جانے والی طالبہ کی شناخت شرمینہ بیگم کے نام سے ہو گئی ہے۔

انگلینڈ کے علاقے بیتھنل گرین کی 15 سالہ رہائشی طالبہ کے بارے میں خیال ہے کہ وہ گذشتہ برس دسمبر میں دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرنے برطانیہ سے شام گئی تھیں۔

ان کے والد محمد الدین نے نے شرمینہ کی ایک تصویر برطانوی اخبار ڈیلی میل کو دی ہے۔

شرمینہ بیگم کی بیتھنل گرین اکیڈمی میں تین سہیلیوں 15 سالہ عامرہ عباسی، 15 سالہ خدیجہ سلطانہ اور 16 سالہ شمیمہ بیگم کے بارے میں قیاس ہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئی ہیں۔

ان چاروں طالبات کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کے مرکز الرقہ میں ہیں۔

شرمینہ بیگم کے والد محمد الدین نے ڈیلی میل کو بتایا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کے لاپتہ ہونے کے بعد پولیس کو خبردار کیا تھا کہ وہ ان تین طالبات پر نظر رکھیں۔

محمد الدین مرکزی لندن میں ایک ریستوران میں ویٹر کا کام کرتے ہیں، انھوں نے ڈیلی میل کو بتایا کہ انھوں نے پولیس سے کہا تھا کہ وہ ’ان تینوں لڑکیوں پر نظر رکھیں، شاید ان کے ذریعے آپ کو کوئی سراغ مل سکے۔‘

محمد الدین کا کہنا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ شرمینہ کو شدت پسندوں نے ان کے استعمال میں رہنے والے موبائل فون پر سوشل میڈیا کے ذریعے ورغلایا تھا۔

انھوں نے اخبار کو بتایا کہ ان کی بیٹی کا رویہ 2014 میں اپنی ماں کی ہلاکت کے بعد بدلنا شروع ہو گیا اور اس نے اسلام میں بہت زیادہ دلچسپی لینا شروع کر دی۔

محمد الدین اپنی بیٹی کی تصویر دکھا رہے ہیں
،تصویر کا کیپشنمحمد الدین اپنی بیٹی کی تصویر دکھا رہے ہیں

انھوں نے کہا: ’میں سمجھا کہ شاید یہ نارمل سی بات ہے کیوں کہ اس کی ماں فوت ہو گئی تھی، اور وہ اکلوتی بچی تھی۔ اس سے پہلے وہ زیادہ مذہبی نہیں تھی۔ وہ مسجد نہیں جاتی تھی اور مغربی لباس پہنتی تھی۔ لیکن پھر اس نے لباس تبدیل کر لیا اور سکارف اوڑھنا اور پنج وقتہ نماز پڑھنی شروع کر دی۔‘

محمد الدین کے مطابق ان کی بیٹی کی ذہن سازی میں دو نوجوان عورتوں نے حصہ لیا ہے جو اسے ہوائی اڈے لے گئیں اور اور اسے ترکی جانے والی پرواز پر چڑھا دیا۔

ڈیلی میل نے لکھا ہے کہ گھر سے جانے کے دو ہفتے بعد شرمینہ نے اپنے باپ کو فون کر کے بتایا: ’میں دولتِ اسلامیہ میں ہوں اور واپس نہیں آؤں گی۔‘

اس سے قبل گذشتہ ماہ برطانیہ سے لاپتہ ہونے والی تین طالبات کی ایک نئی ویڈیو فوٹیج منظر عام پر آئی ہے جس میں وہ بظاہر ترکی کی سرحد پار کر کے شام میں داخل ہونے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔

یہ طالبات ممکنہ طور پر شام میں موجود شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ میں شامل ہونے کے لیے 17 فروری کو لندن سے روانہ ہوئی تھیں۔

برطانوی طالبات کی یہ نئی ویڈیو ترکی کے نشریاتی ادارے پر نشر کی گئی۔ اس ویڈیو میں طالبات کے ساتھ ایک شخص دکھائی دیتا ہے جو ترکی کی سرحد کے قریب ایک گاڑی کے باہر عامرہ عباسی، شمیمہ بیگم اور خدیجہ سلطانہ سے گفتگو کرتا ہے اور ان سے سفری دستاویزات پر بات کرتا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس ویڈیو کو بنانے والے شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس پر الزام ہے کہ وہ ترکی کی سرحد پار کرنے کے لیے تینوں برطانوی لڑکیوں کی مدد کر رہا تھا۔

ترکی کے وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ زیرحراست شخص جاسوس کے طور پر کام کرتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک نامعلوم ملک کے لیے بطور جاسوس کام کرتا تھا جو دولتِ اسلامیہ کے خلاف اتحاد میں شامل ہے۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ اب تک 20 برطانوی خواتین شام جا کر دولتِ اسلامیہ میں شامل ہو چکی ہیں

،تصویر کا ذریعہunkown

،تصویر کا کیپشنخیال کیا جا رہا ہے کہ اب تک 20 برطانوی خواتین شام جا کر دولتِ اسلامیہ میں شامل ہو چکی ہیں

اس سے قبل برطانوی لڑکیوں کی ترکی پہنچنے کے بعد استنبول کے بس سٹیشن کی انتظارگاہ میں ان کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آ چکی ہے۔

شامی پاسپورٹ

وزارتِ داخلہ سے متعلق بی بی سی کے نامہ نگار ڈینیئل سینفورڈ کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو ترکی اور شام کی سرحد پر واقع غزیانتیپ نامی قصبے کی ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تینوں برطانوی لڑکیوں کو غیرقانونی طور پر لوگوں کو سرحد پار کروانے والوں کی مدد حاصل تھی۔

اس نئی ویڈیو فوٹیج میں سنائی دینے والی کچھ گفتگو غیر واضح ہے تاہم اس میں یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ گفتگو میں شامی پاسپورٹ پر بھی بات ہوئی اور لڑکیوں نے وہی مخصوص سامان اٹھا رکھا تھا جو برطانیہ سے نکلتے وقت گیٹوک ائیرپورٹ پر ان کے پاس تھا۔

یہ ویڈیو برطانوی لڑکیوں کے شامی سرحد پار کرنے سے تین ہفتے پہلے بنائی گئی تھی۔ جس میں ان کا ترکی کا سفر ختم آخری مراحل پر تھا۔

یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ طالبات اب شام میں دولتِ اسلامیہ کے کیمپ میں تربیت لے رہی ہیں۔ تاہم اب تک ان تینوں طالبات کا کسی سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

بتایا جاتا ہے کہ اب تک برطانیہ سے کُل 20 خواتین نے شام جا کر ممکنہ طور پر شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ میں شولیت حاصل کی ہے۔