برطانوی لڑکیاں: ’پولیس نے طالبات سے متعلق براہ راست معلومات نہیں دیں‘

،تصویر کا ذریعہAP
برطانیہ سے مبینہ طور پر شام پہنچنے والی تین برطانوی لڑکیوں کے اہلِ خانہ نے برطانوی پولیس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس نے لڑکیوں کے لاپتہ ہونے سے قبل ’اہم معلومات‘ ان تک براہ راست نہیں پہنچائی تھیں۔
لڑکیوں کے اہلِ خانہ کی جانب سے کہا گیا ہے اگر ان کے علم میں یہ ہوتا کہ لڑکیوں کی ایک دوست پہلے ہی شام میں موجود ہے تو وہ شاید اس معاملے میں مداخلت کر سکتے تھے۔
انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ پولیس نے ان تینوں لڑکیوں سے بات کی تھی۔اور پولیس کی جانب سے 15 سالہ شمیمہ بیگم اور عامرہ عباسی اور 16 سالہ خازیدہ سلطانہ تینوں کو والدین کے لیے خط دیا تھا مگر انھوں نے اسے چھپا لیا۔
تاہم دوسری جانب برطانیہ کی میٹروپولیٹن پولیس کا موقف ہے کہ لڑکیوں کے بارے میں انھیں یہ خدشہ نہیں تھا کہ یہ لڑکیاں بیرون ملک روانہ ہو جائیں گی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ بیتھن گرین اکیڈمی کی طالبہ نے گذشتہ ماہ ہی شام میں موجود شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی ہے اور وہ 17 فروری 2014 کو لندن سے ترکی پہنچی تھیں۔

کمروں میں پوشیدہ
بتایا گیا ہے کہ پولیس نے دسمبر میں اس وقت شمیمہ، عامرہ اور خازیدہ سے بات کی تھی جب ان کی قریبی دوست جن کا نام صیغہ راز میں رکھا گیا ہے شام چلی گئی تھیں۔
فروری کے آغاز میں پولیس نے ایک مرتبہ پھر تینوں طالبات سے بات چیت کی تھی اور ان کے ہاتھ ان کے والدین کے لیے ایک خط بھجوایا تھا۔
خط کے ذریعے والدین سے یہ اجازت لینی تھی کہ طالبات کو انسدادِ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سراغ رسائی کے لیے تحریری اجازت دیں۔ اس کا مقصد ان کی دوست کی طرز زندگی اور عقائد کے بارے میں پتہ لگانا تھا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
لڑکیوں نے وہ خط اپنے والدین کو نہیں دیا اور اس کے تین ہفتوں بعد ہی وہ غائب ہوگئی تھیں۔ ان کے جانے کے بعد اہلِ خانہ نے پولیس کی جانب سےدیے جانے والے خط کو ان کے کمروں کی تلاشی کے دوران حاصل کیا۔
اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ پولیس کو سراغ رسائی کے بجائے اہلِ خانہ سے براہ راست بات کرنی چاہیے تھی۔
خازیدہ کی کزن فہمیدہ عزیز کہتی ہیں کہ سکول انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے والدین کو آگاہ نہ کرنا بالکل پاگل پن ہے۔
خازیدہ کی بہن حلیمہ نے کہا کہ ’اگر ہم جانتے کہ کیا ہورہا ہے تو ہم احتیاطی اقدامات کر سکتے تھے۔‘
عامرہ کے والد عباسی حسین کو یقین ہے کہ اگر یہ سب ان کے علم میں ہوتا تو وہ اپنی بیٹی کو برطانیہ سے شام جانے سے روک سکتے تھے۔
میں اسے یہ پیغام بھیجنا چاہتا ہوں کہ ’ہم تم سے پیار کرتے ہیں، تمھیں یاد کرتے ہیں اور تمھارے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتے۔‘
بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ نے ایک نوجوان سے کی جانے والی گفتگو سے اخذ کیا ہے کہ بیتھنل گرین اکیڈمی کے اساتذہ بھی اس بات سے لاعلم تھے کہ دسمبر میں غائب ہو جانے والی سکول کی طالبہ کے بارے میں یہ خدشتہ تھا کہ وہ شام کی دولت اسلامیہ میں شامل ہو چکی ہیں۔
سکاٹ لینڈ یارڈ کی جانب سے دیے جانے والے اس خط کو سب سے پہلے ’وائس نیوز‘ نے شائع کیا تھا جس پر فروری کی دو تاریخ درج ہے۔
تین روز بعد اس خط کو لڑکیوں کے حوالے کیا گیا تھا جس میں تحریری تھا کہ ’میرے خیال سے آپ کی بیٹی شاید (غائب ہو جانے والی پندرہ سالہ) طالبہ کو ایک دوست کی حیثیت سے جانتی ہیں۔‘
خط میں والدین کو بتایا گیا تھا کہ پولیس اور اس کی متعلقہ ایجنسیاں غائب ہونے والی طالبہ کا پتہ لگانے اور انھیں والدین سے دوبارہ ملونے کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم اس خط میں تینوں لڑکیوں کے والدین سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ وہ انھیں ان کی بیٹیوں سے بات چیت کرنے کی اجازت دیں تاکہ وہ مزید غیر محفوظ طالبعلموں کے غائب ہونے کے عمل کو روک سکیں۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس خط کو بھجوانے سے پہلے تک لڑکیوں سے کوئی تفتیش نہیں کی جا رہی تھی۔







