’برطانوی لڑکیوں کے سفرِ شام کی فوٹیج منظر عام پر‘

تینوں لڑکیاں پانچ یا چھ روز قبل ترکی اور شام کی سرحدی کراسنگ کلس کے قریب سے شام میں داخل ہوئی ہیں

،تصویر کا ذریعہBBC World Service

،تصویر کا کیپشنتینوں لڑکیاں پانچ یا چھ روز قبل ترکی اور شام کی سرحدی کراسنگ کلس کے قریب سے شام میں داخل ہوئی ہیں

شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ میں ممکنہ طور پر شمولیت کے لیے ترکی کے راستے شام جانے والی تین برطانوی لڑکیوں کے ترکی میں سفر کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آئی ہے۔

15 سالہ شمیمہ بیگم اور عامرہ عباسی اور 16 سالہ خازیدہ سلطانہ نے 17 فروری کو لندن سے استنبول روانہ ہوئی تھیں۔

سی سی ٹی وی فوٹیج میں 18 فروری کو یہ تینوں لڑکیاں استنبول میں بس سٹیشن پر بیٹھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

سکاٹ لینڈ یارڈ کا کہنا ہے کہ تینوں لڑکیاں ترکی سے شام چلی گئی ہیں اور دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں سے ان کی ملاقات سرحد پر ہوئی ہو گی۔

بی بی سی کے خیال میں ان لڑکیوں نے بس سٹینڈ پر قائم دو بس کمپنیوں کے دفاتر میں انتظار کیا اور اس کے بعد شام کی سرحد کے قریب ترکی کے علاقے عرفا کی بس میں بیٹھ گئیں۔

ایک اندازے کے مطابق یہ تینوں لڑکیاں 18 گھنٹے تک بس سٹینڈ پر موجود رہیں۔

سی سی ٹی وی سے لی گئی تصاویر17 فروری 18:27 جی ایم ٹی اور 18 فروری 11:22 جی ایم ٹی کے درمیان لی گئی ہیں۔

تینوں طالبات سکول میں بنیاد پرست نظریات کی جانب مائل ہوئیں، پرنسپل

،تصویر کا ذریعہAP

،تصویر کا کیپشنتینوں طالبات سکول میں بنیاد پرست نظریات کی جانب مائل ہوئیں، پرنسپل

ذرائع کا کہنا ہے کہ تینوں لڑکیاں پانچ یا چھ روز قبل ترکی اور شام کی سرحدی کراسنگ کلس کے قریب سے شام میں داخل ہوئی ہیں۔

اس سے قبل برطانوی سکیورٹی ایجنسیاں تنقید کی زد میں ہیں کیونکہ ترکی پہنچنے والی طالبہ شمیمہ نے برطانیہ چھوڑنے سے قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اقصیٰ محبوب کو پیغام بھیجا تھا۔

یہ وہی اقصیٰ ہیں جو 2013 میں دولتِ اسلامیہ کے جنگجو سے شادی کرنے کے لیے گلاسکو سے شام پہنچی تھیں۔

اقصیٰ کے خاندان کے قانونی معاون کا کہنا ہے کہ اقصیٰ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ برطانوی پولیس کی زیرِنگرانی تھا۔

ادھر شام جانے والی تین لڑکیوں کے سکول کے پرنسپل کا کہنا ہے کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ یہ لڑکیاں سکول میں بنیاد پرست نظریات کی جانب مائل ہوئیں۔

تینوں لڑکیوں کے اہلِ خانہ نے ان سے گھر واپسی کی اپیل کی ہے۔