#UKElection: برطانوی عام انتخابات میں بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی کی فتح، جنوری میں بریگزٹ کا وعدہ

بورس جانسن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

گذشتہ پانچ برس سے بھی کم عرصے میں ہونے والے تیسرے برطانوی عام انتخابات میں موجودہ وزیراعظم بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی نے اپنی تاریخی فتح پر آئندہ جنوری میں بریگزٹ (یعنی برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی) کا وعدہ کر دیا ہے۔

برطانیہ میں حکومت سازی کے لیے دارالعوام میں 326 نشستیں درکار ہوتی ہیں اور عام انتخابات کے اب تک سامنے آنے والے نتائج کے مطابق ٹوری پارٹی نے 364 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔

کنزرویٹو پارٹی کو ایوان میں 78 ارکان کی اکثریت حاصل ہوگئی ہے اس لیے وزیراعظم بورس جانسن نے حکومت سازی کے لیے ملکہ برطانیہ سے ملاقات کی ہے۔

یہ 1987 میں مارگریٹ تھیچر کی حکومت کے بعد سب سے کنزرویٹو پارٹی کی بڑی اکثریت سے جیت ہے۔

صرف ایک نتیجہ آنا باقی ہے اور کنزرویٹو پارٹی نے 364 نشستیں جبکہ لیبر پارٹی کو 203، سکاٹش نیشنل پارٹی کو 48، لبرل ڈیموکریٹس کو 11 اور ڈی یو پی کو آٹھ پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

اپنی جماعت کی جیت پر وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ ان نتائج سے انھیں ’بریگزٹ کے لیے مینڈیٹ مل گیا ہے۔‘ بورس جانسن کا کہنا تھا کہ وہ اگلے ماہ تک برطانیہ کو یورپی یونین سے نکال لیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

’جنوری میں ہر صورت بریگزٹ ہوگا‘

اس تاریخی فتح پر لندن میں خطاب کرتے ہوئے بورس جانسن کا کہنا تھا کہ وہ دن رات کام کر کے اپنے ووٹرز کے اعتماد کا شکریہ ادا کریں گے۔

انھوں نے کہا ہے کہ ’31 جنوری تک ہر صورت بریگزٹ ہو جائے گا۔‘

برطانوی وزیر اعظم نے اپنے حامیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’ہم نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ یہ اس ملک کے لیے ایک نئی صبح ہے۔‘ یہ ایسے ہی الفاظ تھے جو سنہ 1997 میں ٹونی بلیئر نے اپنی جیت پر ادا کیے تھے۔

انھوں نے لیبر پارٹی کے ووٹرز کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’ان لوگوں نے پہلی بار کنزرویٹو پارٹی کی حمایت کی ہے۔‘

نتائج کا نقشہ
  • Con کنزرویٹو پارٹی
  • Lab لیبر پارٹی
  • SNP سکاٹش نیشنل پارٹی
  • LD لبرل ڈیموکریٹ پارٹی
  • DUP ڈیموکریٹ یونین پارٹی
  • SF شن فن
  • PC پلائیڈ کمری
  • Green گرین پارٹی
  • APNI آلائنس پارٹی آف ناردرن آئرلینڈ
لائن

انھوں نے کہا کہ وہ ’لوگوں کے اعتماد پر پورا اتریں گے اور ایک جمہوری حکومت کی سربراہی کریں گے۔‘

’شاید آپ اگلی مرتبہ لیبر پارٹی کی طرف دوبارہ جانا چاہیں اور اگر ایسا ہوگا تو میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھ پر یقین کیا۔ اور میں آپ کی حمایت کی قدر کروں گا۔‘

’میں دن رات کام کرنے کو اپنا مشن بناؤں گا اور یہ ثابت کروں گا کہ آپ نے صحیح جگہ ووٹ ڈالا۔ اور میں مستقبل میں بھی آپ کی حمایت حاصل کروں گا۔‘

خیال رہے کہ بورس جانسن جولائی میں اس وقت ملک کے وزیراعظم بنے تھے جب کنزرویٹو پارٹی نے ٹریزا مے کی جگہ انھیں اپنا نیا قائد چُنا تھا۔

اگلے انتخابات میں کوربن ’لیبر کی سربراہی نہیں کریں گے‘

حزب اختلاف کی مرکزی جماعت لیبر پارٹی کی کارکردگی اس الیکشن میں مایوس کن رہی ہے اور یہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جماعت کی الیکشن میں بدترین کارکردگی ہے۔

لیبر پارٹی کو اب تک 203 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے جبکہ گذشتہ الیکشن میں اس جماعت نے 263 نشستیں جیتی تھیں۔ لیبر کو شمالی انگلستان، مڈلینڈز اور ویلز کے ان علاقوں میں شکست ہوئی ہے جہاں 2016 میں بریگزٹ منصوبے کی واضح حمایت سامنے آئی تھی۔

جیرمی کوربن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنلیبر پارٹی کے لیڈر جیرمی کوربن: ’یہ رات لیبر پارٹی کے لیے مایوس کن رہی ہے‘

ایک بیان میں لیبر پارٹی کے سربراہ جیرمی کوربن نے کہا ہے کہ ’یہ رات لیبر پارٹی کے لیے مایوس کن رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ غور و فکر کے اس عرصے کے دوران اپنی جماعت کا ساتھ دیں گے لیکن اگلے انتخابات میں لیبر پارٹی کی سربراہی نہیں کریں گے۔

2017 کے مقابلے میں ان انتخابات میں لیبر پارٹی کو ملنے والے ووٹوں کی شرح میں آٹھ فیصد کی کمی آئی ہے جبکہ کنزرویٹو پارٹی کو ایک فیصد زیادہ ووٹ ملے ہیں اور دیگر چھوٹی جماعتوں کی کارکردگی بھی بہتر رہی ہے۔

سکاٹ لینڈ میں نکولا سٹرجن کی جیت

سکاٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی) ان انتخابات میں سکاٹ لینڈ میں سب سے کامیاب جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ جماعت نے 59 میں سے 48 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جو کہ 2017 کی 35 نشستوں کے مقابلے میں 13 نشستیں زیادہ ہیں۔

سکاٹش نیشنل پارٹی کی سربراہ نکولا سٹرجن کا کہنا ہے کہ ان کی جیت ’دوسرے ریفرنڈم کا واضح پیغام ہے۔‘ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اِن نتائج نے اُن کی توقعات مزید بڑھا دی ہیں۔

انتخابات کے نتائج کے مطابق سکاٹ لینڈ کی 59 سیٹوں میں سے ایس این پی نے 48، کنزرویٹو پارٹی نے چھ، لبرل ڈیموکریٹس نے چار اور لیبر نے صرف ایک سیٹ جیتی ہے۔

لبرل ڈیموکریٹس کی مرکزی رہنما جو سوئنسن بھی ایس این پی کے امیدوار کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئی ہیں۔

نیکولا سٹرجیون

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسکاٹش نیشنل پارٹی کی سربراہ نیکولا سٹرجیون

سکاٹش نیشنل پارٹی کو اس الیکشن میں سکاٹ لینڈ میں کل ڈالے گئے ووٹوں کا 45 فیصد ملا ہے جو کہ 2017 کے مقابلے میں آٹھ فیصد زیادہ ہے۔

نتائج کا ردعمل

برطانوی الیکشن کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی برطانوی پاؤنڈ کی قدر میں 2.7 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک پاؤنڈ کی موجودہ قدر 1.35 ڈالر کے برابرہو گئی ہے جبکہ یورو کے مقابلے میں پاؤنڈ کی قدر ساڑھے تین سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی کی کامیابی کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ برطانیہ اور امریکہ اب بریگزٹ کے بعد نئے تجارتی معاہدے کے لیے آزاد ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے میں یورپی یونین سے کسی بھی معاہدے کے مقابلے میں کہیں بڑے اور زیادہ منافع بخش ہونے کا امکان ہے۔‘

قبل از وقت انتخابات کیوں ہوئے؟

ویسے تو برطانیہ میں عام انتخابات کا انعقاد سنہ 2022 میں ہونا تھا تاہم برطانیہ کی پارلیمان نے بریگزٹ کے معاملے سے نمٹنے کے لیے قبل از وقت انتخابات پر اتفاقِ رائے کرتے ہوئے پارلیمان تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

سنہ 1974 کے بعد یہ پہلے ایسے انتخابات ہیں جن کا انعقاد موسمِ سرما میں کیا گیا ہے جبکہ آخری مرتبہ دسمبر کے مہینے میں عام انتخابات کا انعقاد سنہ 1923 میں ہوا تھا۔

انگلینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ میں کل 650 حلقوں میں مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے ووٹنگ کا آغاز ہوا تھا جو رات دس بجے اختتام پذیر ہوا۔ اس کے فوراً بعد گنتی کا آغاز ہو چکا ہے اور جمعے کے صبح تک زیادہ تر حلقوں کے نتائج سامنے آنے کی امید ہے۔

ان انتخابات کے نتیجے میں 650 ممبران پارلیمان کا چناؤ ’فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ‘ کے طریقہ کار کے تحت کیا گیا ہے۔ اس طریقہ کار کے تحت ہر حلقہ میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار کامیاب قرار دیا جاتا ہے۔