بریگزٹ: ملکہ برطانیہ تقریر کب کرتی ہیں اور برطانوی پارلیمانی نظام میں اس کی اہمیت کیا ہے؟

ملکہ برطانیہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

برطانوی پارلیمان کی تین روزہ بندش کے بعد ملکہ برطانیہ آج (پیر) تقریر کریں گی۔

ملکہ برطانیہ کی تقریر کی بعد ہونے والی ووٹنگ میں برسرِاقتدار جماعت کی ہار کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں تاہم ایسا ممکن ہے اور اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔

آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ملکہ برطانیہ کی اس تقریر کی اہمیت کیا ہے اور اگر اراکینِ پارلیمان اس تقریر کو مسترد کرتے ہیں تو کیا ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ملکہ کی تقریر میں کیا ہو گا؟

ملکہ کی تقریر حکومت کو اپنی مستقبل کی ترجیحات کو اجاگر کرنے کا ایک موقع فراہم کرتی ہے۔

یہ تقریر 'سٹیٹ اوپنگ آف پارلیمنٹ' نامی تقریب کا حصہ ہوتی ہے جو کہ نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر منعقد کی جاتی ہے۔

اس تقریب کا آغاز ایک جلوس سے ہوتا ہے جس میں ملکہ برطانیہ بکنگھم پیلس سے ویسٹ منسٹر تک کا سفر کرتی ہے۔

ملکہ برطانیہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشننئے پارلیمانی سال کی تقریب کا آغاز ایک جلوس سے ہوتا ہے جس میں ملکہ برطانیہ بکنگھم پیلس سے ویسٹ منسٹر تک بگھی کے ذریعے سفر کرتی ہے

اراکین پارلیمان کو ہاؤس آف لارڈز کے عہدیدار، جنھیں 'بلیک راڈ' کہا جاتا ہے، طلب کرتے ہیں۔ دارالعوام میں داخل ہونے سے قبل بلیک راڈ دروازے بند کر دیتے ہیں اور ایسا کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دارالعوام بادشاہت سے آزاد ہے۔

اپنی تقریر کے دوران ملکہ ان قوانین کا تعین کرتی ہے جو حکومت کو پارلیمان سے منظور کروانا ہوتے ہیں۔

کنونشن کے تحت ملکہ ہاؤس آف لارڈز میں ممبران پارلیمنٹ اور دیگر معززین کی موجودگی میں ان کا اعلان کرتی ہیں۔

عمومی طور پر ملکہ کی تقریر سال میں ایک مرتبہ ہوتی ہے تاہم 21 جون 2017 کے بعد سے اب تک ملکہ نے کوئی تقریر نہیں کی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے سابق وزیر اعظم ٹریزامے بریگزٹ پر توجہ مرکوز رکھنے کے لیے دو سال پر محیط پارلیمانی سیشن کا انعقاد چاہتی تھیں۔

ملکہ کی تقریر کون لکھتا ہے؟

یہ تقریر حکومتی وزیر لکھتے ہیں اور ملکہ ہاؤس آف لارڈز میں اسے پیش کرتی ہیں۔ یہ تقریر کتنی لمبی ہو گی اس کا دارومدار مجوزہ قوانین اور دیگر اعلانات پر ہوتا ہے جیسا کہ خارجہ پالیسی وغیرہ۔ عموماً یہ تقریر 10 منٹ طویل ہوتی ہے۔

کیا ملکہ کی جگہ کوئی اور یہ تقریر کر سکتا ہے؟

ملکہ برطانیہ اب تک 64 مرتبہ یہ تقریر کر چکی ہیں تاہم سنہ 1959 اور سنہ 1963 میں حاملہ ہونے کے باعث وہ یہ تقریر کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھیں۔

ان کی غیر موجودگی میں لارڈ چانسلر نے یہ تقاریر پڑھیں تھیں۔

بورس جانسن

،تصویر کا ذریعہUK PARLIAMENT / JESSICA TAYLOR

،تصویر کا کیپشنملکہ کی تقریر پر ہونے والی ووٹنگ میں ہارنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اراکین پارلیمان نے نئے مجوزہ حکومتی قوانین کو مسترد کر دیا ہے

کیا اس پر ووٹنگ ہوتی ہے؟

جی ہاں۔

تقریر ہونے کے چند گھنٹوں بعد اراکین پارلیمان اس کے مندرجات پر بحث کا آغاز کرنے کے لیے دارالعوام میں دوبارہ اکھٹے ہوتے ہیں۔

دو اراکین پارلیمان کی تقاریر کے بعد وزیراعظم اس تقریر کو دارالعوام کے ممبران کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ملک کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر سامنے رکھتے ہیں۔

اس کے اپوزیشن لیڈر اس پر اپنا ردعمل دیتے ہیں اور اس کے بعد باقی اراکین پارلیمان کو تقریر کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

اس تقریر پر بحث کا سلسلہ عموماً پانچ دن تک جاری رہتا ہے۔

بحث کے بعد ووٹنگ کی جاتی ہے۔ عموماً یہ علامتی ووٹنگ ہوتی ہے اور اس بات کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں کہ حکومت کو اس ووٹنگ میں ہزیمت کا سامنا ہو۔

حکومت کی ہارنے کی صورت میں کیا ہوتا ہے؟

ملکہ کی تقریر پر ہونے والی ووٹنگ میں ہارنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اراکین پارلیمان نے نئے مجوزہ حکومتی قوانین کو مسترد کر دیا ہے۔

بورس جانسن وزیر اعظم بننے کے بعد سے اب تک لگاتار سات ووٹ سے ہار کا سامنا کر چکے ہیں۔ فی الحال اگر تمام حزب اختلاف کے اراکین حکومت کے خلاف ووٹ دیتے ہیں تو حکومت کو 45 ووٹوں سے ہار کا سامنا ہو گا۔

اگر حکومت کو اس تقریر پر ہزیمت کا سامنا ہوتا ہے تو وزیر اعظم پر مستعفی ہونے کے لیے بہت زیادہ دباؤ ہو گا۔

بادشاہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسنہ 1924 میں کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم سٹینلے بالڈون جارج پنجم کی تقریر کے بعد ہونے والی ووٹنگ میں ہار گئے تھے

اگر حکومت ہارتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ جلد الیکشن منعقد کروایا جائے۔ تاہم یہ ہار اپوزیشن کو وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی بنیاد فراہم کر دے گی۔

بصورت دیگر حکومت خود ہی قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرسکتی ہے بشرطیکہ دو تہائی اراکین پارلیمنٹ اس پر اپنی رضامندی ظاہر کردیں۔

ملکہ کی تقریر پر حکومت کو آخری بار کب شکست ہوئی ہے؟

آخری مرتبہ سنہ 1924 میں ایسا کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے برطانوی وزیراعظم سٹینلے بالڈون کی حکومت کے ساتھ ہوا تھا۔ وہ بادشاہ جارج پنجم کی تقریر سے ایک ماہ قبل ہونے والے عام انتخابات میں اکثریت حاصل نہ کر سکے تھے مگر پھر بھی انھوں نے جارج پنجم کی تقریر پر بحث کا آغاز کروا دیا تھا۔

اس کے بعد وزیر اعظم بالڈون مستعفی ہو گئے اور اقلیتی جماعت لیبر پارٹی نے حکومت کی ڈور بھاگ سنبھال لی۔