http://www.bbc.com/urdu/

Monday, 19 March, 2007, 12:05 GMT 17:05 PST

مانک گپتا
بی بی سی، جمیکا

کھیل کو کھیل کیوں نہیں رہنے دیتے؟

جمیکا سے پاکستان کرکٹ ٹیم کے کوچ باب وولمر کی موت کی خبر جیسے ہی ٹرینیڈاڈ پہنچی، ایک ساتھی صحافی نے مجھ سے کہا کہ’ایشیائی کرکٹ نے یہ پہلی جان لی ہے‘۔

شاید اس حادثے کو کم لفظوں میں اس سے بہتر انداز میں بیان کرنا ممکن نہیں تھا۔

پاکستانی کوچ باب وولمر انتقال کر گئے
مجھےہمیشہ بیٹا کہہ کر بلایا: شعیب
’دل برداشتہ وولمرانتقال کر گئے‘
پاکستانی ٹیم افسردہ ہے

باب وولمر اپنے ’لڑکوں‘ کے ساتھ

ہندوستان کی کرکٹ ٹیم کا ریہرسل میچ دیکھنے کے بعد ہوٹل واپس جاتےوقت ٹیکسی والے نے ہم سے پوچھا’ کیا آپ کو علم ہے کہ ایک کوچ کی موت ہوگئی ہے؟‘

میں نے جو ابھی اس صدمے سے نکل نہیں پایا تھا اور وولمر سے اپنی آخری ملاقات کو یاد کر رہا تھا، صرف سر ہلا کر اس کو جواب دیا: ’ہاں‘ میرے سرد ردعمل کو دیکھ کر ٹیکسی والا ناراض ہوگیا اور بولا کیا کرکٹ کا کھیل آپ کے لیے ایک انسان کی جا ن سے بڑا ہے۔۔۔ ایشیائی کتنے پتھر دل لوگ ہوتے ہیں‘۔

ٹیکسی اچانک آدھے راستے رک گئی اور میرے کانوں میں آواز آئی ’گاڑی سے اتر جاؤ میں مجھے اس طرح کی سواری کو لے کر نہیں چلنا‘۔

تھکے ہونے کے ساتھ مجھے باب وولمر کی موت کا دکھ بھی تھا لیکن بیچ راستے ٹیکسی سے اتر جانے کی بات سن کر مجھے ہوش آیا اور میں نے ٹیکسی ڈرائیور کو سمجھایا کہ ’میں وولمر کے بارے میں ہی سوچ رہا ہوں‘، ٹیکسی دوبارہ چل پڑی ۔

باقی راستے ڈرائیور نے صرف اتنا کہا’ آپ کے یہاں لوگ کھیل کو کھیل کی طرح کیوں نہیں لیتے‘۔

ہند نژاد اس ڈرائیور کا سوال جائز تھا لیکن اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔

ورلڈ کپ کی کوریج کے لیے جنوبی ایشیا سے یہاں آئے صحافیوں کے لیے کرکٹروں کے پتلے جلتے دیکھنا عام سی بات ہے۔ اس لیے ہندوستان میں مہندر سنگھ دھونی کےگھر پر پولیس تعیناتی کی خبر سے کسی صحافی کو حیرت نہیں ہوئی تاہم بعض غیر ملکی صحافی آپس میں بات چیت ضرور کر رہے تھے۔
وولمر نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کی ابتداء 1968 میں برطانیہ کی کاونٹی کینٹ سے کی

ایسے میں ایک شخص ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں کی اس قسم کی دیوانگی سے کافی ناراض لگ رہا تھا۔ ان سے بات کرتے ہوئے میں نے انہیں 1998 کے فٹبال ورلڈ کپ میں ارجنٹینا کے خلاف ڈیوڈ بیکہم کا ریڈ کارڈ یاد دلایا جس کی وجہ سے لندن میں بیکہم کا پتلا جلایا گيا اور ان کو جان سے مارڈالنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔

ان غیر ملکی صحافیوں کو تو شاید میں چپ کرانے میں کامیاب ہوگیا لیکن اندر ہی اندر جانتا تھا کہ جتنے دباؤ میں ہندوستان اور پاکستان کے کھلاڑی کھیلتے ہیں ایسا کسی کھیل میں نہیں ہوتا ہوگا۔

صبح مہندر سنگھ دھونی کو بس سے اتر کر’نیٹس‘ کی طرف خاموش جاتے دیکھ کر محسوس ہو گیا تھا کہ وہ کتنے پریشان ہیں۔ راہول ڈراوڈ کو میں نے پہلے کبھی اتنا اداس نہیں دیکھا تھا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

اس سب پر یہ خوف بھی کہ اگر ورلڈ کپ کے پہلے ہی دور میں باہر ہوجانا پڑا تو کیا ہوگا؟

اس سب کے بیچ باب وولمر کی موت کی خبر سن کر ہندوستان کے خیمے میں مایوسی تھی۔ ایک تو اس لیے کہ وولمر بین الاقوامی کرکٹ برادری کے ایک اہم رکن تھے ساتھ ہی گریگ چیپل اور سینئر کھلاڑیوں کے اچھے تعلقات تھے اور تیسرا یہ کہ اس حادثے نے کھلاڑیوں کو یہ احساس دلایا ہے کہ کروڑں لوگوں کی امیدوں پر پورا نہ اترنے پر کھیلنا کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے۔

ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے مینیجر اور سلیکشن کمیٹی کے رکن سنجے جگدالے نے کہا ’پتہ نہیں لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ کھلاڑی بھی انسان ہیں‘۔

لیکن اس ٹیکسی والے کا وہ سوال اب بھی رہ رہ کر مجھے پریشان کر رہا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں بسنے والے کھیل کو کھیل کیوں نہیں رہنے دیتے؟۔