|
وولمر کی خبر انڈیا میں سرِ فہرست | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کوچ باب وولمر کی موت کی خبر لمحہ بہ لمحہ اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ جیسے ورلڈ کپ کے دیگر واقعات پر اس کا سایہ پڑگیا ہو۔ بھارت میں بھی مسلسل اسی خبر کے تذکرے ہیں اس حوالے سے تبصرے، تجزیے اور ماہرین کی آراء نشر کی جارہی ہیں۔ وولمر کی موت پر کرکٹ ماہرین کے ساتھ ساتھ شائقین میں بھی مایوس ہیں۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کوچ مدن لال کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ کے دوران باب وولمر کا قتل افسوسناک واقعہ ہے۔’ کرکٹ کمیونٹی کو یقین ہی نہیں ہورہا ہے کہ باب وولمر کے ساتھ ایسا ہوگیا ہے۔ اس سے کرکٹ کو زبردست دھچکا لگا ہے اور لگتا ہے کہ اس سے کرکٹ سے لوگوں کا اعتماد ہی اٹھ جائےگا‘۔ مدن لال کہتے ہیں کہ ایشائی ممالک کی ٹیموں کے بیشتر کوچ بیرونی ممالک سے ہیں اور اس واقعے کے بعد ممکن ہے کہ بیرونی کوچ ان ممالک کی ذمہ داری سنبھالنے سے گریز کریں۔ ’سکیورٹی ایک بڑا مسئلہ ہے اور ظاہر ہے اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے‘۔ سابق کرکٹ کھلاڑی لال چند کا کہنا تھا کہ یہ سب کرکٹ کے لیے اچھا نہیں ہے۔ کرکٹ کو’جینٹل مینزگیم‘ یا شریفوں کا کھیل کہا جاتا ہے لیکن ان واقعات سے اسے بہت نقصان پہنچا ہے۔
ملک کے بیشتر اخبارت نے باب وولمر کے قتل کی خبر کو صفحہ اول پر شائع کیا ہے۔ ورلڈ کپ کی کوریج کے لیے بھارت کے بیشتر ٹیلی ویژن چینلز نے اپنے اپنے سپورٹس جرنلسٹ پہلے ہی ویسٹ انڈیز بھیجے ہوئے ہیں لیکن جب یہ پتہ چلا کہ وولمر کی موت پر شکوک و شبہات ہیں تو کئی کرائم رپورٹر بھی وہاں پہنچ کر اس بارے میں پل پل کی خبریں دے رہے ہیں۔ بیشتر ٹی وی اور اخبارات نے باب وولمر کو مايہ ناز کوچ، بہترین انسان اور ایک اچھے کرکٹر کے نام سے یاد کیا ہے۔ سب سے اہم سوال یہ کیا جارہا ہے کہ کہیں یہ معاملہ سٹّے بازی سے تو نہیں جڑا ہوا۔ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہی کرکٹ ہے اور کیا کرکٹ اتنی گر سکتی ہے؟ عام تاثر یہ ہے کہ اس واقعے سے کرکٹ کے کھیل پر ایک ایسا بدنما داغ لگ گیا ہے۔
سپر آٹھ میں جگہ پانے کے لیے جمعہ کو بھارت اور سری لنکا کے درمیان سب سے اہم میچ ہے جس پر توجہ تو دی گئی ہے لیکن سب سے نمایاں تصویریں اور سرخیاں وولمر کی موت کے حوالے سے ہیں۔ ان کی اہلیہ جل وولمر کا رد عمل، پاکستان کی طرف سے انہیں نشان امتیاز سے سرفراز کرنے اور پاکستانی کھلاڑیوں کا وولمر کی موت پر اظہار افسوس جیسے تمام پہلوؤں پر تفصیلی خبریں شائع کی گئی ہیں۔ شایدیہ پہلا یہ موقع ہے جب بھارتی میڈیا میں پاکستانی صحافیوں کی اتنی زیادہ آوازیں سننے کو مل رہی ہیں۔ اس معاملے پر جہاں ٹیلی ویژن چینلز عمران خان، وقار یونس، سرفراز نواز اور ظہیر عباس جیسے سابق کھلاڑیوں کے انٹرویو نشر کر رہے ہیں وہیں کئی پاکستانی صحافیوں کے تبصرے بھی پیش کیے جارہے ہیں۔ باب وولمر اس وقت بھی جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کے کوچ تھے جب ٹیم کے کپتان ہینسی کرونئے نے میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ ان کی موت پر ایک بار پھر یہی سوال اٹھ کھڑا ہے کہ کہیں یہ واردات کرکٹ میں بد عنوانی کا شاخسانہ تو نہیں ہے۔ لیکن ابھی سب کچھ راز میں ہے آخر یہ سب کیسے ہوا اور اس کے پیچھے کیا مضمرات ہوسکتے ہیں۔ امکان یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ خبر مزید بڑی ہوسکتی ہے۔ |
اسی بارے میں وولمر: استعفے کی نوبت ہی نہ آئی18 March, 2007 | کھیل وولمر: موت کے حالات ’مشکوک‘ 21 March, 2007 | کھیل کوچ باب وولمر انتقال کرگئے19 March, 2007 | کھیل وہ پاکستانی ٹیم کی دنیا تھے: ڈکی برڈ19 March, 2007 | کھیل ’انضمام، وولمر اور باری استعفیٰ دیں‘18 March, 2007 | کھیل | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||