’کافروں کے ملک میں رہنے کو ترجیح دوں گا‘

ایک انسانی سمگلر عبدل کے فرضی نام سے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں یہ کام پسند نہیں
،تصویر کا کیپشنایک انسانی سمگلر عبدل کے فرضی نام سے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں یہ کام پسند نہیں
    • مصنف, شائمہ خلیل
    • عہدہ, بی بی سی نیوز، افغانستان

افغانستان کی انتہائی غیر یقینی صورت حال میں یہ جاننا بہت مشکل ہے کہ وہاں کون جیت رہا ہے۔

حکومت شدید دباؤ میں ہے۔ نیٹو کے تعاون کے بغیر پہلے سیزن میں ناکافی تنخواہ اور کام کی زیادتی کی وجہ سے افغانستان کی افواج طالبان سے مقابلہ کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔

حالانکہ اس وقت وہ جنوبی صوبے ہلمند میں طالبان سے نبردآزما ہیں لیکن جس طرح طالبان جنگجوؤں نے شمالی شہر قندوز پر قبضہ کیا ہوا ہے وہ لوگوں کے ذہن پر ایک دباؤ ہے۔

افغان باشندوں کے لیے یہ تمام صورت حال انتہائی تشویش کا باعث ہے اور اس بات میں کوئی حیرت نہیں کہ یورپ آنے والے مہاجرین میں شامیوں کے بعد دوسرا نمبر افغانیوں کا ہے۔

لوگوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ وہ افغانستان ہی میں رہیں یا پھر اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ملک سے باہر نکلنے کی کوشش کریں۔

مہاجرین کی تعداد

افغانستان کے باہر تارکین وطن کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا

،تصویر کا ذریعہd

،تصویر کا کیپشنافغانستان کے باہر تارکین وطن کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا

اس غیر یقینی صورت حال میں بھی ایک کاروبار بہت اچھا چل رہا ہے اور وہ ہے انسانی سمگلنگ کا۔

ایک انسانی سمگلر نے عبدل کے فرضی نام سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ افغانستان سے ایران، ترکی اور پھر یورپ تک کا ایک سفر 5000 سے 7000 امریکی ڈالر کے درمیان آتا ہے۔

اس میں سے عبدل کا حصہ 10 فیصد ہوتا ہے جبکہ باقی رقوم نیٹ ورک کے دوسرے سمگلروں اور سفر کے اخراجات میں چلی جاتی ہیں۔ مہاجرین رقم کا ایک حصہ ضمانت کے طور ر پیشگی ادا کرتے ہیں جبکہ باقی رقم ان کے منزل پر پہنچنے کے بعد ان کے خاندان والوں سے لی جاتی ہے۔

عبدل نے واضح کیا کہ یہ سفر پر خطر ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’سفر کا سب سے مشکل مرحلہ ترکی اور یونان کے درمیان ہے، جس میں اکثر لوگ پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں اور کبھی کبھار کشتیاں بھی الٹ جاتی ہیں۔ لیکن حفاظت کرنے والا اللہ ہے میں نہیں۔‘

کابل کی سخت سردی میں صبح سویرے پاسپورٹ آفس کے باہر لوگوں کی لمبی قطار
،تصویر کا کیپشنکابل کی سخت سردی میں صبح سویرے پاسپورٹ آفس کے باہر لوگوں کی لمبی قطار

عبدل نے بتایا کہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ملک سے باہر نکلنے کے لیے ان سے رابطہ کرتے ہیں لیکن وہ بیمار، انتہائی بوڑھے افراد، چھوٹے بچوں اور حاملہ خواتین کو لینے سے انکار کردیتے ہیں۔

عبدل اپنے اس کاروبا کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ وہ لوگوں کی مدد کررہے ہیں لیکن ان کو یہ بھی احساس کہ وہ ان سے رقم لے کر ان کو ایک غیر یقینی صورت حال میں ڈال دیتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’میں نے اپنے تین بیٹوں کو بھی سمگل کیا۔ مجھے ان کی کمی بہت محسوس ہوتی ہے اور جب میں دوسرے والدین کو اپنے بچوں کے لیے روتے ہوئے دیکھتا ہوں تو بہت پریشان ہوجاتا ہوں۔ مجھے اپنا کام بہت زیادہ پسند نہیں ہے، اور کبھی کبھی میں اپنے آپ کو قصوروار سمجھتا ہوں۔‘

مرجانا بہتر ہے

بہت سے تارکین وطن افغانستان واپس نہیں آنا چاہتے

،تصویر کا ذریعہ

،تصویر کا کیپشنبہت سے تارکین وطن افغانستان واپس نہیں آنا چاہتے

کابل کی سخت سردی میں صبح سویرے پاسپورٹ آفس کے باہر لوگوں کی لمبی قطار دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ عبدل اور ان جیسے دیگر لوگ اس کاروبار میں کیوں ہیں۔

لوگ وہاں صبح سے ہی موجود ہیں اور اپنے فارم بھرنے میں مصروف ہیں۔ ہر ایک یہاں سے نکلنا چاہتا ہے اور زیادہ تر واپس آنا نہیں چاہتے۔

عارف محمود جن کی عمر 30 سال کے قریب ہے مایوسی اور غصے کا شکار ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ’ یہاں کوئی نوکری نہیں ہے، کوئی تحفط نہیں ہے، بدعنوانی بہت زیاد ہے۔ میں یہاں کے بجائے کافروں کے ملک میں رہنے کو ترجیح دوں گا۔

’سنہ 2007 میں میرے والد ایک خود کش دھماکے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ میری ماں اور بھائی کو طالبان نے ماردیا۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ ایک خطرناک سفر ہے لیکن میں اس ملک میں رہنے کے بجائے راستے میں جان دینا بہتر سمجھتا ہوں۔‘

افغانستان کو آپ کی ضرورت ہے

افغانستان کے حالات سے پریشان یہ لوگ یورپ کے پرخطر سفر کے لیے تیار ہیں

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنافغانستان کے حالات سے پریشان یہ لوگ یورپ کے پرخطر سفر کے لیے تیار ہیں

لیکن اس شدید مایوسی کے باوجود بھی کچھ لوگ بہت پر امید ہیں۔

نوجوانوں کے ایک گروپ نے ’افغانستان کو آپ کی ضرورت ہے‘ کے نام سے ایک ڈیجیٹل مہم شروع کر رکھی ہے۔

23 سالہ شکیب محسن یار کا کہنا ہے کہ وہ اس ملک سے قابل اور ذہین دماغوں کے انخلا کو روکنا چاہتے ہیں جبکہ 26 سالہ شارم گلزاد کا خیال ہے کہ ہجرت کرنے والے افغانیوں کو ملک سے باہر کی زندگی کے بارے میں غیر حقیقی توقعات ہیں۔

یورپ آنے والے مہاجرین میں شامیوں کے بعد دوسرا نمبر افغانیوں کا ہے

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنیورپ آنے والے مہاجرین میں شامیوں کے بعد دوسرا نمبر افغانیوں کا ہے

انھوں بتایا کہ ’جب وہ جرمنی میں تھے تو وہاں انھوں نے پہلی بار افغانیوں کو بھیک مانگتے دیکھا۔ وہ بہت ہی دل گرفتہ منظر تھا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ جیسے ہی وہ ملک سے باہر جائیں گے، حالات بہتر ہوجائیں گیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔‘

انھوں نے ملک میں بدعنوانی، بیروزگاری اور عدم تحفط کی مشکلات کا بھی اعتراف کیا۔

گلزاد نے کہا کہ ’صبح گھر سے نکلتے وقت آپ کو اس بات کا پتا نہیں ہوتا کہ شام کو آپ گھر واپس آئیں گے یا نہیں۔‘

’ لیکن ہمیں یہ خطرہ مول لینا ہوگا۔ ہمارے اندر اس ملک کو بچانے کی صلاحیت ہے۔ افغانستان ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ اگر ہم ذمہ داری لیں اورقدم بڑھائیں تو ہم اس ملک کو بدل سکتے ہیں۔‘