آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مودی کا کشمیر کا پہلا دورہ: ’میں تمہیں تمہارے دادا دادی، ماں باپ جیسی پریشان کن زندگی نہیں گزارنے دوں گا‘

مودی

،تصویر کا ذریعہAni

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی قومی پنچایتی راج دن کے موقع پر اتوار کو جموں و کشمیر پہنچے اور انھوں نے کئی ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح اور اعلان کیا ہے۔

واضح رہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو آئین ہند میں خصوصی حیثیت دلانے والے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد یہ جموں و کشمیر کا ان کا پہلا دورہ ہے۔

دوسری طرف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نریندر مودی کے دورے پر سرکاری سطح پر یوم سیاہ منایا جا رہا ہے۔ سرکاری اہلکاروں کے مطابق اس موقع پر بھارت مخالف احتجاجی مظاہرے بھی منعقد کیے جا رہے ہیں۔

پی ایم مودی جموں کے سانبا ضلع میں پلّی پنچایت پہنچے، جہاں انھوں نے 20 ہزار کروڑ روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا۔ اس موقع پر انھوں نے ملک کی تمام گرام سبھا یعنی پنچایتوں سے خطاب بھی کیا۔

اپنی تقریر کے دوران وزیر اعظم مودی نے کہا کہ 20 ہزار کروڑ روپے کے پروجیکٹ کا افتتاح ہوا ہے اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، ان کوششوں سے جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔

’مرکزی حکومت کی سکیمیں اب یہاں براہ راست نافذ ہو رہی ہیں جس سے یہاں کے دیہاتوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ چاہے وہ ایل پی جی کنکشن ہو یا ٹوائلٹ، یہ یہاں کے لوگوں کو براہ راست دستیاب ہو رہے ہیں۔ آنے والے 25 سالوں میں جموں و کشمیر ترقی کی نئی داستان لکھے گا۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’پچھلی سات دہائیوں میں (یہاں) صرف 17،000 کروڑ روپے کی نجی سرمایہ کاری ہوئی تھی، لیکن گذشتہ دو سالوں میں، 38،000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ہوئی ہے اور پرائیویٹ کمپنیاں یہاں آرہی ہیں۔ سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کے لیے کھلے ذہن کے ساتھ آ رہے ہیں۔

مودی

،تصویر کا ذریعہAni

’ایک سرکاری فائل دہلی سے چلتی تھی اور اسے جموں و کشمیر پہنچنے میں دو سے تین ہفتے لگتے تھے۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ اب تین ہفتوں کے اندر یہاں سولر پلانٹ لگا دیا جاتا ہے۔ کام کے انداز میں یہ تبدیلی جموں و کشمیر کو نئی بلندیوں پر لے جائے گی۔‘

انھوں نے کہا: ’میں جموں و کشمیر کے نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ مجھ پر اعتماد کریں۔ وادی کے نوجوانو، میں تمہیں تمہارے دادا دادی، ماں باپ، نانا نانی جیسی پریشان کن زندگی نہیں گزارنے دوں گا۔ میں تمہیں یقین دلانے آیا ہوں۔‘

پی ایم مودی نے کہا: ’گذشتہ آٹھ سالوں میں، ہماری حکومت نے ایک بھارت شریشٹھ بھارت (ایک انڈیا عظیم انڈیا کے عہد) کو مضبوط کرنے کے لیے کام کیا ہے۔ جب ہم ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو ہماری توجہ رابطے پر ہوتی ہے اور فاصلے کو کم کرنے پر بھی۔ دلوں کی دوری ہو یا وسائل کی، اسے دور کرنا ہماری ترجیح ہے۔‘

سولر پلانٹ کا افتتاح

،تصویر کا ذریعہMOHIT KANDHARI/BBC

،تصویر کا کیپشنپلی مین سولر پلانٹ کا افتتاح

اسمبلی انتخابات کی تیاری

دفعہ 370 اور 35-A کی منسوخی کے بعد جموں میں وزیر اعظم مودی کی یہ پہلی ریلی ہے۔ اس دوران وہ جموں و کشمیر میں آئندہ اسمبلی انتخابات کے لیے میدان تیار کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔

یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ جسٹس (ر) رنجنا پرکاش دیسائی کی سربراہی میں تین رکنی حد بندی کمیشن وزیر اعظم کے دورے کے فوراً بعد اپنی حتمی رپورٹ جاری کر سکتا ہے۔ ایسے میں یہ قیاس بھی لگایا جا رہا ہے کہ کشمیر میں ہندوؤں کے مقدس مقام کی زیارت یعنی امرناتھ یاترا کے بعد ریاست میں کسی بھی وقت انتخابی بگل بج سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اس سے قبل نومبر سنہ 2021 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے راجوری ضلع کے نوشہرہ سیکٹر میں کنٹرول لائن کے قریب انڈین فوجیوں کے ساتھ ہندوؤں کا تہوار دیوالی منایا تھا۔ جموں و کشمیر بی جے پی یونٹ کے رہنماؤں نے بھی ان کے دورے کے حوالے سے کمر کس لی ہے۔ اپوزیشن کیمپ اور سیاسی حلقوں میں بھی ہلچل ہے۔

وزیر اعظم کے دورے سے عین قبل حزب اختلاف کی کانگریس، نیشنل کانفرنس، سی پی آئی ایم، سی پی آئی جیسی جماعتوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کرکے جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

تیاریاں

،تصویر کا ذریعہMOHIT KANDHARI/BBC

،تصویر کا کیپشنمودی کی پلی میں آمد سے قبل تیاریاں

ان رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ’یہاں جون 2018 سے گورنر راج نافذ ہے، اس دوران عام آدمی کی مشکلات بڑھ رہی ہیں، بے روزگاری بڑھ رہی ہے لیکن حکومت کی اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔‘

کانگریس کے جموں و کشمیر کے چیف ترجمان رویندر شرما نے کہا: ’وزیر اعظم مودی پلّی میں پنچایتی راج نظام کے ارکان سے خطاب کریں گے، لیکن جموں و کشمیر میں یہ نظام اب تک مضبوط نہیں ہو سکا ہے۔‘

پی ایم مودی کی ریلی کے بعد، یہ بہت ممکن ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ 8 مئی کو جموں میں ایک ریلی نکالیں گے۔ اس ریلی میں پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کو واپس لینے کا نعرہ لگانے کی بات کہی جا رہی ہے تاہم اس ریلی کے منتظمین کو ابھی تک وزیر داخلہ کے دفتر سے کوئی تصدیق نامہ نہیں ملا ہے۔

یہ ریلی جموں و کشمیر پیپلز فورم کی جانب سے منعقد کی جا رہی ہے۔ اس ریلی میں سنہ 1965 اور 1971 کی انڈیا۔پاک جنگوں کے دوران پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے مہاجرین کی قربانیوں کو یاد کیا جائے گا۔

مودی

،تصویر کا ذریعہTWITTER/BJP4INDIA

کشمیر کی عجیب خاموشی

سرینگر سے بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور بتاتے ہیں کہ اتوار کو جب وزیراعظم نریندر مودی جموں کے پلی گاؤں میں ہزاروں پنچایت کارکنوں سے خطاب کے دوران اس گاؤں کو کاربن سے پاک ملک کے پہلے گاؤں کے طور پیش کر رہے تھے تو کشمیر میں عجیب خاموشی تھی۔

ماضی میں ایسے ہائی پروفائیل دوروں پر بہت کچھ ہوتا تھا۔ ہندنواز معاشی اور سیاسی مطالبات کرتے تھے جبکہ علیحدگی پسند ہڑتال کی کال دیتے تھے۔ لیکن روایت کے برعکس اس بار نہ مظاہرے ہوئے، نہ مطالبے کیے گئے اور نہ توقعات کا اظہار۔ اس خاموشی اور بے التفاتی کی آخر وجہ کیا ہے؟

پلی گاؤں میں وزیراعظم مودی نے صرف پنچایتی راج کی ہی بات نہیں کی بلکہ جموں کشمیر میں 20 ہزار کروڑ روپے مالیت کے تعمیراتی منصوبوں کا افتتاح بھی کیا۔ ان میں جموں کشمیر کو ملک کے ساتھ ملانے والی بڑی سڑکیں، پن بجلی اور سولر پاور منصوبے وغیرہ شامل ہیں۔

وزیراعظم مودی نے جموں کشمیر میں پنچایت کی سطح پر جمہوریت کو بحال کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ’میں برسوں سے جموں کشمیر کی باریکیوں سے واقف ہوں، میں آپ کو جانتا ہوں اور آپ مجھے جانتے ہیں۔‘

کشمیر

،تصویر کا ذریعہMOHIT KANDHARI/BBC

لہجہ سیاسی، پاکستان مخالف بیانیے سے پرہیز

نریندر مودی طویل مدت کے بعد جموں کشمیر میں ریلی سے خطاب کر رہے تھے لیکن اُن کا لہجہ سیاسی نہیں تھا۔ نہ انھوں نے جموں کشمیر کے حالات کی بات کی اور نہ ہی پاکستان پر کوئی الزام عائد کیا۔ حالانکہ اُن کے اس دورے سے قبل صرف 48 گھنٹوں کے دوران جموں اور کشمیر کے صوبوں میں تشدد کی مختلف وارداتوں اور پولیس کارروائیوں میں ایک نیم فوجی افسر، سات عسکریت پسند اور ایک نوجوان سمیت نو افراد ہلاک ہوئے۔

اُن کے دورے سے صرف دو روز قبل جموں میں ہی سُنجواں علاقہ کے فوجی کیمپ پر مسلح حملے کے دوران ایک نیم فوجی افسر اور دو عسکریت پسند ہلاک ہو گئے۔ سُنجوا اُسی پلی گاؤں کے پڑوس میں ہے جہاں وزیراعظم مودی نے ریلی سے خطاب کیا۔ کشمیر کے بارہمولہ اور کولگام اضلاع میں دو الگ الگ جھڑپوں کے دوران پانچ عسکریت پسند مارے گئے، جبکہ بڈگام کے ماگام علاقے میں لوگوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس کے تعاقب سے خوفزدہ ہوکر ایک نوجوان دریا میں کُود گیا اور ڈوب کر ہلاک ہو گیا۔

لیکن اِن واقعات کا وزیراعظم نے کوئی ذکر نہیں کیا۔ روایتی طور پر بھارت کے وزیرِ اعظم یا وزیرِ داخلہ جب بھی جموں کشمیر میں ہوتے تو مسلح تشدد کے خلاف فورسز کی کارروائیوں کی تعریف کرتے اور پاکستان پر الزام عائد کرتے کہ وہ کشمیر میں مسلح تشدد بھڑکا رہا ہے۔ اس کے برعکس اتوار کو جموں میں وزیراعظم مودی کی تقریر نہایت غیر سیاسی تھی، یہاں تک کہ انھوں نے اپنی دیرینہ روش سے بھی پرہیز کیا جس میں وہ اکثر یہاں کی روایتی سیاسی جماعتوں پر ’خاندانی راج‘ کا الزام عائد کرکے لوگوں سے کہتے تھے کہ وہ جذباتی نعروں کے جھانسے میں نہ آئیں۔

مودی

،تصویر کا ذریعہAni

کیا مودی کا کشمیر فارمولا کامیاب ہورہا ہے؟

اگست 2019 میں جموں کشمیر کی آئینی خود مختاری ختم کرنے اور خطے سے لداخ کو الگ کرنے کا تاریخی فیصلہ کیا گیا تو سرینگر اور دلی کے درمیان دوریوں میں مزید اضافہ ہو گیا۔

اس فیصلے کے خلاف عوامی ردعمل کو روکنے کے لیے کئی ہفتوں تک کرفیو نافذ رہا، انٹرنیٹ، فون اور مواصلات کے تمام وسیلے مسدود رہے، سینکڑوں عام شہریوں اور علیحدگی پسندوں کے ساتھ ساتھ ہند نواز سیاست دانوں کو بھی جیل بھیج دیا گیا اور سیاسی سرگرمیاں ٹھپ رہیں۔

مزید پڑھیے

اس دوران جموں کشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری اور تعمیراتی منصوبوں کے وعدے ایک طرف، کشمیر کی جغرافیائی حیثیت تبدیل کرنے اور اسے براہ راست دلی کے کنٹرول میں لانے کے فیصلے سے چین اور پاکستان بھی بپھر اُٹھے۔ پاکستان نے سفارتی محاذ پر کافی شور مچایا جبکہ چین نے لداخ کے گلوان علاقے پر فوج کشی کی۔ لیکن اس سب کے باوجود مودی حکومت نے اگست 2019 کے فیصلہ کو مسئلہ کشمیر کے حل کے ہم معنی قرار دیا۔

علیحدگی پسندوں کی بڑی تعداد اب بھی جیلوں میں ہے، لیکن طویل قید کے بعد رہا کیے گئے ہند نواز رہنماؤں فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ نے دلی پر الزام عائد کیا کہ اس فیصلے نے کشمیریوں کو انڈیا کی مین سٹریم سے مزید دور دھکیل دیا ہے۔

جون 2021 میں وزیراعظم مودی نے فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی ، عمر عبداللہ اور دیگر ہند نوازوں کو بات چیت کے لیے نئی دلی مدعو کیا اور وہاں یہ اعلان کیا کہ اب ’دلی سے دوری بھی اور دل سے دوری بھی دور ہو گئی ہے۔‘

اس بیان کو کشمیری سیاسی حلقوں نے بڑا ’بریک تھرو‘ قرار دیا اور توقع ظاہر کی گئی کہ مودی حکومت اب کشمیر کے حوالے سے سخت گیر رویہ تبدیل کر رہی ہے۔ اس سے پہلے ہی لائن آف کنٹرول پر ہند پاک افواج کے درمیان سیز فائر پر سختی سے عمل کرنے پر بھی اتفاق ہوا تھا۔ لیکن امید کی یہ فضا چند ہی ہفتوں میں ختم ہو گئی۔

سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کئی ماہ بعد اعتراف کیا کہ ’دل سے دوری اور دلی سے دوری‘ کو ختم کرنے کی بات محض ایک محاورہ تھا اور زمینی حالات جوں کے توں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کشمیر دلی سے بھی دور ہے اور دل سے بھی۔‘

کشمیر

،تصویر کا ذریعہBILAL BAHADUR

علیحدگی پسندی کے خلاف ترقی کا بیانیہ

کشمیر کے حساس حلقوں کو خدشہ ہے کہ مسلمان آبادی کو „ڈی پولیٹیسائز‘ یعنی سیاسی میدان سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ، اسمبلی، عدلیہ، پولیس اور دیگر اداروں میں مسلم افسروں کی تعداد بدستور گھٹ رہی ہے اور مسلم اکثریتی خطہ ہونے کے باوجود یہاں کے سبھی فیصلے غیر مسلم افسر اور حاکم کرتے ہیں۔

لیکن مودی حکومت ان خدشات کو پراپگنڈا قرار دیتی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ کشمیر میں ہندمخالف نظریات کو پروان چڑھانے کے لیے لوگوں کو بھارت کے اقتدار اعلیٰ کے خلاف اُکسایا ہے۔ شاید اسی بیانیے کے خلاف مودی حکومت نے جموں کشمیر میں تعمیر و ترقی کا بیانیہ متعارف کیا ہے۔

جموں کے پالی گاؤں کی پنچایت کو ملک کی پہلی ’کاربن فری‘ پنچایت بنانے، گاؤں میں پکی سڑکیں، الیکٹرک بسیں، سولر پاور اور تعلیم کے لیے بہتر بنیادی ڈھانچہ اور دیگر سہولات کی فراہمی اسی بیانیے کا گویا ایک علامتی اعلان ہے۔

مودی حکومت نے جموں کشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری کی مہم چھیڑ رکھی ہے، جس کے تحت اب تک 38 ہزار کروڑ روپے مالیت کے منصوبوں کی تجاویز ملک کے مختلف سرمایہ داروں اور صنعتی اداروں نے پیش کی ہیں۔

تاہم جموں کی طرح کشمیر میں بھی یہ تاثر تقویت پا رہا ہے کہ مودی کی کشمیر پالیسی ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں غیر لچکدار ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کشمیر سے متعلق غیر روایتی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

صحافی اور تجزیہ نگار ہارون ریشی کہتے ہیں: ’نومبر 2015 میں جب نریندر مودی نے سرینگر میں ایک ریلی سے خطاب کیا تو ان کی تقریر سے پہلے اس وقت کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سید نے اُن سے کہا تھا کہ کشمیر میں پُرامن انتخابات کو پاکستان کی طرف سے ایک اشارہ سمجھتے ہوئے پڑوسی ملک کے ساتھ بات چیت کی جانی چاہیے۔

تاہم مفتی کے بعد اپنی تقریر میں نریندر مودی نے کہا تھا کہ کشمیر سے متعلق انھیں دنیا میں کسی کے مشورے یا تجزیے کی ضرورت نہیں ہے۔‘ اس پالیسی کو اکثر مبصرین کشمیر سے متعلق ’مودی ڈاکٹرائن‘ سے تعبیر کرتے ہیں ، جس کے مطابق کشمیر میں علیحدگی پسندی یا خودمختاری کے سیاسی بیانیے کو غیر متعلق بنانا حکومت کی پہلی ترجیح ہو گی۔

لیکن ایل او سی پر 15ماہ سے جاری ہندپاک افواج کے مابین کامیاب سیز فائر سے بعض حلقے توقع کر رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں کشمیر میں قدغنوں کی شدت میں کمی آ سکتی ہے۔

صحافی اور تجزیہ نگار ہارون ریشی کہتے ہیں: ’پاکستان میں سیاسی استحکام کے بعد بھارت کسی نہ کسی سطح پر پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، لیکن اس سے کشمیر میں حالات بدلیں گے یا نہیں یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا۔‘