کیا انڈیا اپنے فوجیوں کی تعداد میں کٹوتی کرنے جا رہا ہے؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, سوتک بسواس
- عہدہ, بی بی سی نامہ نگار، انڈیا
انڈین دارالحکومت دہلی میں گذشتہ ہفتے مسلح افواج میں بھرتی کھولنے کے مطالبے کے تحت ایک مظاہرے کا انعقاد کیا گیا۔ اس مظاہرے میں ریاست راجھستان سے آنے والا ایک ایسا نوجوان شامل ہوا جس کا دعویٰ تھا کہ وہ مظاہرے میں پہنچنے کے لیے اسے 50 گھنٹے تک دوڑنا پڑا۔
23 سالہ نوجوان، جس نے قومی پرچم اٹھا رکھا تھا، نے اس دوران تقریبا 350 کلومیٹر کا فاصلہ دوڑ کر طے کیا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس نوجوان کا کہنا تھا کہ وہ فوج میں شامل ہونے کا ’شدید خواہشمند‘ ہے مگر مشکل یہ ہے کہ فوج میں گذشتہ دو سال سے نئی بھرتیوں کا عمل رُکا ہوا ہے اور مسلح افواج میں شامل ہونے کے خواہشمند افراد ’بوڑھے‘ ہو رہے ہیں۔ (واضح رہے کہ انڈین فوج میں بھرتی کے لیے امیدوار کی عمر کی زیادہ سے زیادہ 21 سال ہے۔)
14 لاکھ اہلکاروں کے ساتھ انڈیا کی فوج دنیا کی سب سے بڑی افواج میں سے ہے۔ انڈیا کے بہت سے نوجوان فوج میں جانے کے خواہشمند ہوتے ہیں کیونکہ اسے ایک محفوظ اور باعزت ملازمت سمجھا جاتا ہے۔ ہر سال انڈین فوج کے تقریباً 60,000 اہلکار ریٹائر ہو جاتے ہیں اور فوج ان کی جگہ لینے والے خواہشمند نوجوانوں کی بھرتی کے لیے ملک بھر میں واقع 100 مراکز کا انعقاد کرتی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو برسوں سے وبائی امراض کی وجہ سے بھرتیاں معطل کر دی گئی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ مکمل حقیقت نہیں ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت شاید فورسز کے اہلکاروں کی تعداد کو کم کرنے کے طریقے تلاش کر رہی ہے۔
اور اس کی ایک وجہ حاضر سروس فوجیوں کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشن کے ضمن میں اٹھنے والے بھاری بھرکم اخراجات ہیں۔ تنخواہوں اور پنشن کی مد میں فوج کے 70 ارب ڈالر کے بجٹ کا نصف سے زیادہ خرچ ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے فوج کو جدید بنانے اور ہتھیاروں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بہت کم رقم بچتی ہے۔
انڈیا اپنی فوج پر امریکہ اور چین کے بعد دنیا کا تیسرا سب سے زیادہ خرچ کرنے والا ملک ہے اور دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ہتھیار درآمد کرنے والا ملک ہے۔ (نریندر مودی کی حکومت اب ملکی دفاعی ساز و سامان کی تیاری کو فروغ دینے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔) انڈیا کے پاس جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائلوں کا بھی وافر ذخیرہ ہے۔

،تصویر کا ذریعہAFP
محکمہ دفاع کے ذرائع کے حوالے سے ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت ایک مقررہ مدت کے لیے فوجیوں کی خدمات حاصل کرنے کی تجویز پر غور کر رہی ہے، جسے ’ڈیوٹی کا تین سالہ ٹور‘ بھی کہا جاتا ہے۔
نریندر مودی بذات خود فوج میں اصلاحات کے حامی ہیں۔ ماضی میں انھوں نے ایسی ’فورسز کی ضرورت کے بارے میں بات کی ہے جو چست، موبائل اور ٹیکنالوجی سے لیس ہو، نہ کہ صرف انسانی بہادری پر منحصر ہو۔ اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ انڈیا کو 'تیزی کے ساتھ جنگیں جیتنے والی صلاحیتوں کی ضرورت ہے، کیونکہ ہمارے پاس زیادہ دیر تک جاری رہنے والی لڑائیوں کی آسائش نہیں ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
فوج کا سائز کم کرنے کی سب سے زیادہ حوصلہ افزا وکالت ایک انتہائی معزز ریٹائرڈ افسر کی طرف سے آتی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ایچ ایس پناگ نے ایک حالیہ تبصرے میں کہا کہ فوج میں ایک لاکھ سے زیادہ اہلکاروں کی موجودہ کمی اصلاحات لانے کا ایک اچھا موقع ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل پناگ کا کہنا ہے کہ ’21ویں صدی کی افواج کو جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی سے لیس، چست اور فوری رد عمل دینے والی مسلح افواج کی ضرورت ہے۔ بطور خاص برصغیر کے تناظر میں اس کی زیادہ ضرورت ہے جہاں جوہری ہتھیار بڑے پیمانے پر روایتی جنگوں سے باز رکھتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ انڈیا کے پاس 'بڑی فوج ہے جہاں ہم معیار کی تلافی کے لیے مقدار کے استعمال پر مجبور ہیں۔ ایک ترقی پذیر معیشت کے طور پر انڈیا کے دفاعی اخراجات میں ’تیزی سے اضافہ نہیں ہو سکتا‘ اور اس لیے اسے فوجی اہلکاروں کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ایک سابق افسر اجے شکلا، جو اب دفاعی امور پر لکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ ’فوج کے پاس اس وقت کم لوگوں کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ہمیں اس چربی (اضافی جوانوں) کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔‘
دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سکیورٹی سٹڈیز کے پروفیسر لکشمن کمار بہیرا کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں چین کی مثال لی جا سکتی ہے جو اپنے دفاعی بجٹ کا ایک تہائی سے بھی کم اہلکاروں پر خرچ کرتا ہے، جبکہ انڈین فوج میں یہ 60 فیصد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کو روکنے کا ایک طریقہ ’ٹیکنالوجی پر مرکوز جدید کاری پر زیادہ توجہ‘ ہو سکتی ہے اور اس کے تحت فورسز کو کم کرنے کی ضرورت ہو گی۔
لیکن اس بارے میں تحفظات ہیں کہ کیا یہ فوج کے سائز کم کرنے کا یہ صحیح وقت ہے۔
انڈیا سے متصل دشمن سرحدوں کا مطلب ہے کہ فوج کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس حریفوں پاکستان اور چین کے خلاف بیک وقت دو زمینی جنگیں لڑنے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
چین کے ساتھ ملنے والی متنازع ہمالیائی سرحد پر جاری کشیدگی کے باعث اب بھی دسیوں ہزار انڈین فوجی تعینات ہیں۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں تقریباً پانچ لاکھ فوجیوں کی مستقل موجودگی ہے۔ پھر سرحد پار سے دہشت گرد حملوں کا خطرہ بھی ہے۔
سنگاپور میں ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے انیت مکھرجی کا کہنا ہے کہ ’ایک ایسے وقت میں جب آپ کے پاس چیلنجنگ خطوں کی غیر آباد سرحدیں ہوں تو فوری طور پر افرادی قوت میں کمی ان مقامات پر ان کی دستیابی پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ٹور آف ڈیوٹی‘ کی تجویز کے متعلق زیادہ سنگین خدشات ہیں۔ مسٹر مکھرجی کا خیال ہے کہ ٹور آف ڈیوٹی کا خیال بہت سارے مفروضوں پر مبنی ہے جو اس کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق ’پیشہ ور فوجیوں کی جگہ مختصر مدت کے عارضی فوجیوں کو لینے سے فوج کو کمزور ہونے کا زیادہ سنگین خطرہ ہے۔‘
دہلی کے ایک تھنک ٹینک سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے سینیئر فیلو سوشانت سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ تجویز انھیں بے چین کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے سپاہیوں کا ایک ایسا نوجوان گروہ تیار ہو گا، جو اپنی 20 کی دہائی کے اوائل میں ہی فوج سے باہر ہو جائے گا اور وہ بھی ایسے ملک میں جہاں وسیع پیمانے پر بے روزگاری پائی جاتی ہے۔
مسٹر سنگھ پوچھتے ہیں کہ ’کیا آپ واقعی ایسے بہت سے لوگوں کو فوج کے باہر رکھنا چاہتے ہیں جنھیں اسلحہ چلانے کی اچھی تربیت حاصل ہو اور وہ بھی ایسے معاشرے میں جہاں نوکریاں کم ہیں اور جہاں تشدد کی سطح پہلے ہی بہت زیادہ ہے؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ سابق فوجی پولیس میں یا سکیورٹی گارڈز کے طور پر خدمات انجام دیں؟‘
مسٹر سنگھ کہتے ہیں: ’میرا خوف یہ ہے کہ اس کا نتیجہ بے روزگار ہتھیاروں کے تربیت یافتہ نوجوانوں کی ملیشیا کا تیار کرنا ہو گا۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایک نفیس اور ہلکی فوج کا معاملہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل پناگ کا استدلال ہے کہ مسٹر مودی کی حکومت کو اصلاحات کو اپنانا چاہیے، ایسا لگتا ہے کہ انھیں ’روایت کی پابند فوج کے طور پر رہنے دیا گیا ہے، جو اپنی فطرت کے مطابق اپنی جوں کی توں والی حالت پر رہنا چاہتی ہے۔‘ لیکن مسٹر سنگھ جیسے ناقدین اس کے متعلق اہم سوالات اٹھاتے ہیں۔
وہ پوچھتے ہیں کہ اس خلا کا کیا ہو گا جو برسوں تک آسامیوں کے پُر نہ ہونے سے پیدا ہو جائے گی؟ آپ نئی ’عارضی‘ بھرتی ہونے والوں کو کتنی تیزی سے تربیت دے سکتے ہیں؟ اس کا سیاسی اور عوامی ردعمل کیا ہو گا ایک ایسی صورتحال میں جب پہلے ہی بھرتیوں پر عائد پابندی اٹھانے کے لیے احتجاج کیا جا رہا ہے؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ فوج کے کن شعبوں میں کٹوتی کی جائے گی؟ وہ سپاہی جو ایئر ڈیفنس گن چلاتا ہے یا وہ سپاہی جو راشن کی دیکھ بھال کرتا ہے؟
مسٹر سنگھ کہتے ہیں: ’ایسا لگتا ہے کہ عام کی جانے والی باتوں میں کوئی حکمت عملی یا منصوبہ نہیں ہے۔ یہ چپکے سے کی جانے والی اصلاحات ہے۔‘












