انڈیا کے وزیراعظم کے دورہ جموں سے قبل فورسز کی کارروائیاں: مگر مودی کشمیر میں کریں گے کیا؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, ریاض مسرور
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سرینگر
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے جنوبی صوبہ جموں کے علاقے 'سُنجواں' میں انڈین فوجی چھاؤنی پر گذشتہ روز (جمعہ) ہونے والا عسکریت پسندوں کا حملہ وزیراعظم نریندر مودی کے طے شدہ دورہ کشمیر سے صرف دو دن قبل ہوا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی ضلع سانبہ کے پالی گاؤں میں اتوار (کل) کو 'راشٹریہ پنچایت دِوس ' یعنی قومی یومِ پنچایت کے موقع پر عوامی اجتماع سے خطاب کریں گے۔ عسکریت پسندوں کا نشانہ بننے والا سُنجواں کیمپ اُس گاؤں سے فقط 17 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے جہاں وزیر اعظم مودی خطاب کریں گے۔
نریندر مودی 24 اپریل کو ایک روزہ دورے پر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر پہنچیں گے۔
جمعے کو ہونے والے اس حملے کے بعد جموں میں سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے، تاہم کشمیر صوبے میں سیاسی اور سماجی حلقوں کو مایوسی ہے کہ سنہ 2019 میں جموں کشمیر کی خودمختاری کے خاتمے کے بعد وزیراعظم نے خطے کا پہلا ہی دورہ صرف جموں تک محدود رکھا ہے، جس کا یہ مطلب لیا جا رہا ہے کہ مودی کشمیر سے متعلق کسی سیاسی رعایت کا کوئی بڑا اعلان نہیں کریں گے۔
مودی کے دورے سے قبل سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں تیزی

،تصویر کا ذریعہGetty Images
جموں کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل پولیس مُکیش سنگھ کے مطابق جمعہ کے روز سحری سے کچھ دیر قبل مسلح عسکریت پسندوں نے جموں کے سرحدی ضلع سانبہ کے سُنجواں علاقے میں واقع ایک فوجی چھاؤنی کے قریب اُس بس کو نشانہ بنایا جس میں انڈیا کی سینٹرل انڈسٹریل سکیورٹی فورس یا ’سی آئی ایس ایف‘ کے جوان سوار تھے۔
فراہم کی گئی تفصیلات کے مطابق ان اہلکاروں کو صبح کی شفٹ کے لیے چھاؤنی لے جایا جا رہا تھا جب بس پر فائرنگ کی گئی اور گرینیڈ داغے گئے۔
اس حملے میں سی آئی ایس ایف کے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر ایس پی پاٹِل ہلاک جبکہ نو نیم فوجی اہلکار زخمی ہوئے۔ پولیس افسر کے مطابق طویل آپریشن کے بعد دونوں حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا جن کے قبضے سے اسلحہ اور گولہ، بارود برآمد ہوا ہے۔
مُکیشن سنگھ نے آپریشن کے بعد جموں میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ 'ہمیں پہلے سے اطلاع تھی کہ دہشت گرد وزیراعظم کی آمد سے قبل کسی بڑی کارروائی کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔اسی لیے پہلے سے چوکنا فورسز نے فوری جوابی کارروائی کی۔'
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
جموں کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے اس کارروائی کو ’خودکُش حملے کی کوشش‘ بتایا ہے۔ اُن کے نائب مُکیش سنگھ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ 'جس طرز کے ہتھیار اور ساز و سامان برآمد ہوئے ہیں اُس سے صاف لگتا ہے کہ دہشت گرد خودکش حملہ کرنے آئے تھے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ بس پر حملے کے بعد عسکریت پسندوں نے چھاؤنی کے قریب واقع محمد انور نامی شہری کے مکان میں پناہ لی جہاں اُن کا محاصرہ کر کے اُنھیں ہلاک کیا گیا۔
بی جے پی کی جموں کشمیر شاخ کے سربراہ رویندر رینا نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے جوانوں نے پاکستان کے ارادوں کو ناکام بنا دیا ہے۔‘ پاکستان کی جانب سے اس الزام پر فی الحال کوئی ردعمل نہیں آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
قابل ذکر بات یہ ہے کہ وزیراعظم مودی کے دورے سے قبل کشمیر میں بھی عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشنز میں شدت آ گئی ہے۔
جموں میں جمعہ کو ہونے والے حملے سے چند گھنٹے قبل جمعرات کی شام کو شمالی کشمیر کے بارہمولہ میں ایک جھڑپ کے دوران تین عسکریت پسند مارے گئے جبکہ اس تصادم میں پانچ فورسز اہلکار زخمی ہوئے۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ’جھڑپ میں کالعدم لشکر طیبہ کے دیرینہ کمانڈر یوسف کانٹرو بھی مارے گئے جو گذشتہ 22 برس سے سرگرم اور پولیس کو مطلوب تھے۔‘
جموں میں مقیم سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار تَرُرون اُپادھیائے کا کہنا ہے کہ سُنجواں میں ہوا حملہ دراصل مودی حکومت کے اُس بیانیے کے خلاف عسکریت پسندوں کا ردعمل تھا جس میں بتایا جا رہا ہے کہ جموں کشمیر میں سنہ 2019 کے بعد سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوگیا ہے اور اب خوشحالی آ رہی ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
’ملی ٹینسی (عسکریت پسندی) جب تک زندہ ہے تب تک عسکریت پسند اپنی موجودی کا احساس دلاتے رہیں گے۔ اُنھوں (عسکریت پسندوں) نے وزیراعظم کے دورے سے قبل یہی پیغام دیا ہے۔ ماضی میں بھی جب منموہن سنگھ بحیثیتِ وزیراعظم کشمیر گئے تھے تب بھی بڑا حملہ ہوا تھا۔ اگست 2019 کے بعد جو دعوے کیے گئے کہ یہاں سب کچھ ختم ہوا ہے اور امن اور شانتی ہے، یہ حملہ اُس دعوے کے خلاف عسکریت پسندوں کا ردعمل ہے کہ حالات ابھی بھی ٹھیک نہیں ہیں۔‘
وزیراعظم مودی جموں میں کیا کریں گے؟
حکام کے مطابق وزیراعظم مودی انڈیا کے قومی یومِ پنچایت کو جموں کشمیر میں منانا چاہتے ہیں۔ یہ دن ہر سال 24 اپریل کو منایا جاتا ہے۔ اتوار کو وزیراعظم نریندر مودی جموں کے سرحدی ضلع سانبہ کے پالی گاوٴں میں ایک تقریب سے پورے ملک کے پنچایتی اداروں میں پنچایت اہلکاروں سے خطاب کریں گے۔
وہ اس موقع پر شمسی توائی پر چلنے والی ایک بجلی منصوبے کا بھی افتتاح کریں گے۔ اس سلسلے میں تقریباً اڑھائی کروڑ روپے کی لاگت سے تیار کردہ ایک سولر پاور پلانٹ پر کام مکمل کیا جا چکا ہے جو کم از کم ساڑھے تین سو گھروں کو بجلی مہیا کرے گا۔
چونکہ پالی گاؤں جمعہ کو حملے کا شکار ہونے والے سُنجواں کیمپ کے قریب واقع ہے، اس لیے اس علاقے میں سکیورٹی انتظامات کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔
ایک سکیورٹی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ تقریب کی جگہ کے ارد گرد کئی کلومیٹر کی حدود میں ہیلی کاپٹر اور خصوصی ڈرون تعینات کیے گئے ہیں تاکہ کسی بھی مشتبہ نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکے۔
قابل ذکر ہے کہ جموں صوبے میں ہندوؤں کی اکثریت ہے اور اس صوبے میں سنہ 2014 سے بی جے پی کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مودی کشمیر کیوں نہیں آئے؟
وزیراعظم مودی کا جموں کا دورہ طے ہوتے ہی یہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ وہ کشمیر کا بھی دورہ کریں گے اور یہاں کسی بڑی سیاسی رعایت کا اعلان کریں گے۔ لیکن گذشتہ ہفتے وزیراعظم دفتر نے یہ وضاحت کر دی کہ مودی کا دورہ جموں تک ہی محدود رہے گا۔
جموں میں مقیم بی جے پی کے کئی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ مودی جموں کشمیر کو پورے ملک میں ترقی اور خوشحالی کا ماڈل بنانا چاہتے ہیں۔
جموں میں بی جے پی کے ایک رہنما نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’کشمیر کے سیاستدان 70 سال سے نئی دلی کو مسلہ کشمیر کے نام پر بلیک میل کرتے رہے ہیں۔ مودی جی کشمیر کے حالات کو اپنی شرائط پر ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ترقی اور خوشحالی میں عام لوگوں کو شریک کر کے پاکستان اور اُس کے حامیوں کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔‘
تاہم کشمیر کے سیاسی حلقے گذشتہ کئی برسوں سے وزیراعظم مودی سے اپیلیں کرتے رہے ہیں کہ وہ اپنے پیشرو اور ملک کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی طرز پر کشمیر سے متعلق مفاہمت کا رویہ اپنائیں۔
سابق وزیر اور ماضی میں بی جے پی کے ساتھ مشترکہ حکومت بنانے والی پیپلز ڈیمورکریٹک پارٹی کے رہنما نعیم اختر کہتے ہیں کہ ’واجپائی نے سرینگر سے ہندپاک بات چیت کا آغاز کیا تھا۔ اگر یہ دورہ بھی اُسی طرز پر ہوتا تو اچھے دِنوں کی توقع کی جا سکتی تھی۔‘
لیکن جموں کی طرح کشمیر میں بھی یہ تاثر تقویت پا رہا ہے کہ مودی کی کشمیر پالیسی ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں ’غیرلچکدار‘ ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کشمیر سے متعلق غیرروایتی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
صحافی اور تجزیہ نگار ہارون ریشی کہتے ہیں کہ ’نومبر 2015 میں جب نریندر مودی نے سرینگر میں ایک ریلی سے خطاب کیا تو اُن کی تقریر سے پہلے اُس وقت کے وزیراعلیٰ مفتی محمد سید نے اُن سے کہا تھا کہ کشمیر میں پُرامن انتخابات کو پاکستان کی طرف سے ایک اشارہ سمجھتے ہوئے پڑوسی ملک کے ساتھ بات چیت کی جانی چاہیے۔ لیکن مفتی کے بعد اپنی تقریر میں نریندر مودی نے کہا تھا کہ کشمیر سے متعلق اُنھیں دُنیا میں کسی کے مشورے یا تجزیے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
مزید پڑھیے
ہارون کہتے ہیں کہ اُسی لمحے سے کشمیر کے روایتی ہندنواز سیاست دانوں کا قافیہ اور دائرہ عمل تنگ ہوگیا ہے۔ اُن کے مطابق مودی حکومت مسلہ کشمیر سے متعلق کشمیری سیاستدانوں کو کوئی کردار نہیں دینا چاہتے۔
ہارون ریشی کہتے ہیں کہ ’کشمیر سے متعلق کسی بھی وزیراعظم کا بیانیہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ بھارت کے پاکستان کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں۔‘
اس سلسلے میں ایل او سی پر 15 ماہ سے جاری ہندپاک افواج کے مابین کامیاب سیزفائر کا حوالہ دے کر بعض مبصرین کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں سیاسی استحکام کے بعد بھارت کسی نہ کسی سطح پر پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، لیکن اس سے کشمیر میں حالات بدلیں گے یا نہیں یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا۔‘











