ایران، افغانستان تعلقات: کیا ایران افغانستان پر طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کی تیاری کر رہا ہے؟

،تصویر کا ذریعہTWITTER/BILALKARIMI21
- مصنف, کیان شریفی
- عہدہ, ایرانی امور کے ماہر
طالبان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے نو جنوری کو اقتصادی تعلقات اور افغان پناہ گزینوں کے بارے میں بات چیت کے لیے ایران کا دورہ کیا ہے۔ کابل میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے یہ اُن کے سب سے سینیئر رہنماؤں کا تہران کا پہلا دورہ ہے۔
طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے افغانستان کے وفد کی قیادت کی۔ اس وفد نے ناصرف ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان بلکہ افغان حزب اختلاف کی اہم شخصیات سے بھی ملاقات کی۔ طالبان کے ترجمان نے اپنے وزیرِ خارجہ کی ایرانی حکام کے ساتھ ملاقات کو ’مثبت اور تعمیری‘ قرار دیا ہے۔
گذشتہ سال اگست میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کسی بھی ملک نے انھیں تسلیم نہیں کیا ہے لیکن ایران ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے طالبان کے ساتھ بات چیت جاری رکھی اور مشرق میں اپنے اس پڑوسی (افغانستان) کے ساتھ تجارتی تعلقات اور روابط بھی برقرار رکھے ہی۔
تہران کا اصرار ہے کہ اس کا طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے کا ابھی کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن متقی کے دورے سے کچھ اور ہی اشارہ ملتا ہے۔
کیا ایران طالبان کو تسلیم کرنے جا رہا ہے؟
ایران کئی مہینوں سے کہہ رہا ہے کہ وہ طالبان کو افغانستان کے ’جائز حکمران‘ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
دس جنوری کو ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے ایران کے اس مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ تہران اسلام پسند گروپ (طالبان) کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے کی ’پوزیشن میں نہیں ہے۔‘
کابل میں ایرانی سفیر بہادر امینیان نے تین جنوری کو افغانستان کے نجی ٹی وی چینل طلوع نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایران کے طالبان کو تسلیم کرنے کے لیے طالبان کو ’ایک جامع حکومت‘ تشکیل دینی ہو گی جو افغانستان میں مختلف نسلی گروہوں کی عکاسی کرتی ہو۔
متقی کے دورے سے پہلے ایک ایرانی نیوز ویب سائٹ نے الزام لگایا تھا کہ تہران افغان سفارت خانہ طالبان کے حوالے کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ تاہم وزارت خارجہ نے اس رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ 1961 کے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
متقی کے دورے کے بعد مؤقف
طلوع نیوز کے ساتھ اپنے انٹرویو میں امینیان نے کہا ہے کہ جیسے ہی افغانستان میں کوئی جامع حکومت تشکیل پا جاتی ہے تو ایران نہ صرف طالبان کی حکومت کو تسلیم کرے گا بلکہ وہ ’دوسرے ممالک کو بھی قائل‘ کرے گا کہ وہ ایسا کریں۔
انھوں نے مزید کہا کہ جامع حکومت ’یا تو انتخابات کے ذریعے یا افغانستان کی اپنی روایات کے ذریعے‘ قائم کی جا سکتی ہے۔ ایک ایسے ملک کے نمائندے کی طرف سے یہ ایک دلچسپ بیان ہے جس کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے گذشتہ سال انتخابات نہ کروانے پر عرب شاہی حکومتوں کو تنقید اور طنز کا نشانہ بنایا تھا۔
ایرانی رہنما نے جون 2021 میں کہا تھا کہ ’اکیسویں صدی کے وسط میں کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جنھیں۔۔۔ ایک ہی قبیلہ (خاندان) چلا رہا ہے۔ ان ممالک تک انتخابات کی خوشبو تک نہیں پہنچی ہے۔ ان کے عوام کو بیلٹ باکس اور پھل کے ڈبے میں فرق معلوم نہیں ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہEPA
اس لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایران کے لیے طالبان کے زیرِ قیادت افغانستان کو تسلیم کرنے میں لوگوں کی مرضی کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کا مطالبہ ہے کہ انتظامیہ میں مختلف قبائل کے لوگ شامل ہوں۔
گیارہ جنوری کو اخبار ’جمہوری اسلامی‘ نے کہا تھا کہ کیونکہ طالبان نے انتخابات کو مسترد کر دیا ہے اس لیے اس کا مطلب ہے کہ ’ایران، اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ حکام کی طرف سے مقرر کردہ شرائط کی بنیاد پر طالبان کو کسی طرح بھی تسلیم نہیں کرے گا۔‘
لیکن دوسری طرف ایران کا بیان کچھ اور ہی اشارہ دیتا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ ایران طالبان کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ نے امیر عبداللہیان اور متقی کی ملاقات کے حوالے سے اپنے بیان میں اعلیٰ طالبان ایلچی کو ’افغانستان کی وزارت خارجہ کا قائم مقام سربراہ‘ کہا ہے۔ صرف ایک دن پہلے سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے انھیں ’طالبان کے وزیر خارجہ‘ کہا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
ایران کا فائدہ
ایران ان چند ممالک میں سے ایک ہے جنھوں نے طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد افغانستان سے تعلقات منقطع نہیں کیے تھے۔ ان ممالک میں پاکستان اور روس بھی شامل ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایران کو افغانستان کی ضرورت ہے۔
گذشتہ ایرانی سال مارچ (2020-21) میں ایران نے افغانستان کو 2.3 ارب ڈالر مالیت کا سامان برآمد کیا تھا اور اس طرح یہ اسلامی جمہوریہ کے پانچ بڑے برآمدی ممالک میں سے ایک بن جاتا ہے۔
اس کے علاوہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے اس وقت افغانستان کا تیسرا بڑا شہر ہرات ایران کے لیے ہارڈ کرنسی کا ایک اہم ذریعہ بنا ہوا ہے۔
لہٰذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ تہران نے امریکہ پر بین الاقوامی دباؤ کا مطالبہ کیا ہے کہ وہ اگست میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ضبط کیے گئے فنڈز جاری کرے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغان مرکزی بینک کے بیرون ملک اثاثے تقریباً 10 ارب ڈالر مالیت کے ہیں۔
ایران کی پاسداران انقلاب اسلامی (آئی آر جی سی) سے وابستہ سخت گیر اخبار ’جوان‘ نے 11 جنوری کو افغانستان کے ساتھ ایران کی ’مؤثر تعلقات کی پالیسی‘ کو سراہا اور کہا کہ متقی کے دورے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پالیسی کام کر رہی ہے۔
کابل کے طالبان کے ہاتھوں جانے کے بعد سے ایران افغانستان میں استحکام کی کوششوں میں شامل رہا ہے اور اس نے مختلف مواقع پر مختلف افغان گروپوں کے درمیان ملاقاتوں کی میزبانی بھی کی ہے۔
نو جنوری کو اس نے تہران میں متقی اور حزبِ مخالف کے سینیئر رہنماؤں احمد مسعود اور اسماعیل خان کے درمیان ایک ملاقات کی ثالثی بھی کی تھی۔ سابق صدر اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے سے قبل بھی تہران نے انتظامیہ اور طالبان کے درمیان ثالثی کی کوشش کی تھی۔
یہ بات عیاں ہے کہ قطع نظر اس کے کہ کابل میں کس کے پاس اقتدار ہے۔ ایران ہمیشہ افغانستان کے مستقبل میں شامل رہنا چاہتا ہے اور اگرچہ اس نے ابھی طالبان کو تسلیم نہیں کیا ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ اس کے لیے ان کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنا ابھی زیادہ دور نہیں ہے۔












