طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر: 'اشرف غنی کو مارنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا'

طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر

،تصویر کا ذریعہRta

افغان نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر نے کہا ہے کہ طالبان کا سابق صدر اشرف غنی کو قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

ملا برادر نے یہ بات افغانستان کے سرکاری ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اشرف غنی اور ان کے قریبی ساتھی کہتے رہے ہیں کہ طالبان کابل پر قبضے کے بعد انھیں قتل کرنا چاہتے تھے۔

اشرف غنی نے گزشتہ دنوں بی بی سی کو دیے ایک انٹرویو میں گزشتہ برس اگست میں ملک چھوڑنے کے اپنے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت کے ان کے سکیورٹی چیف نے کہا تھا کہ اگر صدر (اشرف غنی) افغانستان نہ چھوڑنے کے اپنے فیصلے پر اٹل رہے تو ’سب کی موت یقینی ہے۔‘

گذشتہ سال اگست کے مہینے میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اشرف غنی کے بھائی حشمت غنی نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کے بھائی کے ’قتل کی سازش کی جا رہی ہے تاکہ کابل میں افراتفری اور خونریزی ہو اور کچھ ریٹائر اور بوڑھے قبائلی سردار اپنا حصہ حاصل کر سکیں۔‘

تاہم حشمت غنی نے اس انٹرویو میں یہ نہیں بتایا کہ یہ سازش کون بنا رہا تھا۔ حشمت علی بھی ایک سیاست دان ہیں اور انھوں نے طالبان کی حمایت کیے بغیر ان کی حکومت قبول کر لی تھی۔

طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر

،تصویر کا ذریعہRta

ملا عبدالغنی برادر نے کیا کہا؟

افغانستان کے سرکاری ٹی وی چینل آر ٹی اے ورلڈ کے صحافی نے ملا برادر سے جب سوال کیا کہ ’سابق صدر اشرف غنی نے ایک حالیہ انٹرویو میں بہت کچھ کہا ہے، اور یہ بھی کہا کہ اگر وہ ملک نہ چھوڑتے تو انھیں مار دیا جاتا۔ کیا امارت اسلامیہ کا ایسا کوئی منصوبہ تھا؟

اس کے جواب میں ملا برادر نے سوال کیا کہ ’کوئی بھی مجرم ہو، وہ ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ بہت سے لوگ افغانستان میں ہی ٹھہرے۔۔۔ کیا انھیں کوئی دقت پیش آئی؟‘

پھر ٹی وی اینکر نے پوچھا کہ ’تو جو کچھ کہا گیا وہ غلط تھا؟‘

برادر نے کہا: ’بالکل، اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔‘

ملا برادر کا افغانستان میں رہ جانے والوں کی بات کرتے ہوئے سابق افغان صدر حامد کرزئی اور سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی طرف اشارہ تھا۔ یہ دونوں رہنما کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد بھی ملک چھوڑ کر نہیں گئے۔

لیکن معزول صدر محمد اشرف غنی، ان کے سات قریبی مشیر اور ان کے بیشتر وزرا کابل پر طالبان کے کنٹرول کے دوران ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔

اشرف

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’عام معافی کے لیے پرعزم‘

ملا برادر نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے تمام لوگوں کے لیے معافی کا اعلان کیا تھا اور اس کا اطلاق اشرف غنی پر بھی ہوتا ہے۔

ملا برادر نے کہا کہ ’اللہ نے ہمیں افغانستان میں کامیابی دی، یہ اللہ کی مدد کا نتیجہ ہے، اسی لیے ہمارے امیر نے ان تمام لوگوں کے لیے معافی کا اعلان کیا جو پرانی انتظامیہ سے وابستہ تھے۔ پھر ہم اشرف غنی یا کسی اور کو کیسے مار سکتے تھے؟‘

’ہم عام معافی کے پابند ہیں اور ہمارا کسی کو قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘

ملا برادر کے ساتھ انٹرویو میں سابق افغان فوجی افسران اور پولیس اہلکاروں کے مارے جانے اور تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی رپورٹس پر بھی رائے مانگی گئی۔

ملا برادر نے اپنے جواب میں کہا کہ پچھلی حکومت کے فوجیوں پر کُھلے عام ایسا کوئی ظلم نہیں ہوا، اگر یہ ڈھکے چھپے کیا گیا تو جن لوگوں نے یہ سب کیا، وہ گرفتار ہو چکے ہیں۔ ہماری فورسز کو کسی کو مارنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے گذشتہ ماہ اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ طالبان کے دور حکومت میں 100 سے زائد سابق سکیورٹی اہلکاروں کو بیدردی سے قتل کیا جا چکا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے 15 اگست سے 31 اکتوبر کے درمیان 47 سابق سکیورٹی فورسز کے اعداد و شمار بھی اکٹھے کیے جنھوں نے یا تو طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالے یا جنھیں طالبان نے پکڑ لیا۔ بعد میں انھیں قتل کر دیا گیا۔

اس رپورٹ کے بعد امریکہ سمیت 22 ممالک نے ایک مشترکہ بیان میں طالبان سے کہا کہ وہ سابق افغان سکیورٹی فورسز کو نشانہ نہ بنائیں۔

اس سے قبل انسانی حقوق کی ایک اور تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اپنی رپورٹ میں طالبان پر بے لگام ہلاکتوں کا الزام لگایا تھا۔

گزشتہ سال 15 اگست کو طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد، ایمنسٹی نے ایک رپورٹ میں کہا کہ 30 اگست کو تقریباً 300 طالبان جنگجو دہانی کل نامی گاؤں کے قریب پہنچے جہاں کئی سابق فوجیوں کے خاندان مقیم تھے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے نو فوجیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ دو دیگر فوجی کراس فائر میں مارے گئے اور اس واقعے کے بعد ہونے والی جھڑپوں میں دو شہری بھی مارے گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک 17 سالہ لڑکی بھی شامل تھی۔

طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر

،تصویر کا ذریعہReuters

ملا برادر کون ہیں؟

ملا عبدالغنی برادر ان چار طالبان رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنھوں نے سنہ 1994 میں افغانستان میں طالبان کی بنیاد رکھی تھی۔

سنہ 2001 میں افغانستان پر امریکی قیادت میں فوجی کارروائی کے نتیجے میں طالبان کا اقتدار ختم ہو گیا۔ ملا برادر اس کے بعد طالبان کی شدت پسند سرگرمیوں کے لیے تنظیم کے سب سے اہم رہنما بن گئے۔

سنہ 2010 میں، وہ پاکستان کے شہر کراچی میں ایک امریکی-پاکستانی مشترکہ آپریشن میں پکڑے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت وہ ملا عمر کے بعد طالبان کے دوسرے بڑے رہنما تھے۔

ان کا نام سنہ 2012 میں دوبارہ سامنے آیا جب یہ خبر آئی کہ ملا برادر کا نام ان رہنماؤں میں سرفہرست ہے جن کی رہائی طالبان نے امن مذاکرات کے لیے مشروط کی تھی۔ آخرکار انھیں 21 ستمبر 2013 کو رہا کر دیا گیا۔

اس وقت سے ملا برادر جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اس کے بعد جب امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات کی بات آگے بڑھی تو ان کا نام پھر سرخیوں میں آیا۔

گذشتہ سال انھیں افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت میں نائب وزیراعظم بنایا گیا۔ ان کے علاوہ ملا عبدالسلام حنفی کو بھی نائب وزیراعظم بنایا گیا۔

ملا برادر اس تنظیم کے پہلے رہنما ہیں جنہوں نے سنہ 2020 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فونک گفتگو کی تھی۔

اس سے قبل انھوں نے طالبان سے امریکی فوجیوں کے انخلا سے متعلق دوحہ معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

گذشتہ سال سات ستمبر کو اعلان کردہ عبوری حکومت میں طالبان کے بانیوں میں سے ایک ملا محمد حسن اخوندزادہ کو حکومت کا سربراہ، یعنی وزیراعظم بنایا گیا تھا۔