افغانستان میں طالبان: کیا ایران سخت گیر طالبان حکومت سے مستحکم تجارتی تعلقات کا خواہاں ہے؟

ابراہیم، ملا

،تصویر کا ذریعہEPA/Getty

    • مصنف, کیان اشرفی
    • عہدہ, ایرانی امور کے ماہر

ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ اور حتیٰ کہ قدامت پسند نظریات کے حامل جرائد، رسائل اور ٹی وی چینلز پر کئی ہفتوں سے مسلسل طالبان کی ایک معتدل تصویر پیش کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے اور بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ نشر و اشاعت کے کئی ادارے تو طالبان کو ایرانی عوام کو اپنا حامی بنانے اور اپنی صفائیاں پیش کرنے کا پورا موقع فراہم کر رہے ہیں۔

طالبان حکام ایرانی نشریاتی اداروں کو مسلسل انٹرویوز دے رہے ہیں اور کم از کم دو مواقعوں پر طالبان کے رہنماؤں کے انٹرویو براہ راست نشر کیے گئے، جن میں وہ ایران کے عوام کو اس بات پر قائل کرتے نظر آئے کہ انھوں نے ماضی کی اپنی روش ترک کر دی ہے۔

تہران میں طالبان کے بارے میں گرمجوشی پیدا ہو رہی ہے اور طالبان کی ساکھ بہتر کرنے کی کوششوں کا بظاہر مقصد مستقبل میں افغانستان میں قائم ہونے والی طالبان کی حکومت کے ساتھ معاشی اور تجارتی تعلقات کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔

افغانستان پر طالبان کے مکمل قبضے سے کئی ہفتوں پہلے سے ہی ایران کے انتہا پسند نظریات کے حامل اخبار ’کیھان‘ (جس کا تعلق ایران کے رہبر اعلیٰ علی خمنہ ای سے جوڑا جاتا ہے) اور پاسداران انقلاب سے تعلق رکھنے والے اخبار ’جوان‘ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ذرائع ابلاغ کے یہ دونوں ادارے اِس بات کا پرچار کر رہے ہیں کہ طالبان بدل گئے ہیں۔

سرکاری نشریاتی ادارے پر بھی ایسے مبصرین اور تجزیہ کاروں کو بھرپور موقع دیا جا رہا ہے جو اُن ہی خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں۔

15 اگست کو کابل کی حکومت کے گرنے کے بعد سے قدامت پسند ایرانی اخبارات افغانستان میں رونما ہونے والے واقعات کا واحد ذمہ دار امریکہ کو قرار دے رہے ہیں اور بڑی احتیاط سے طالبان پر تنقید سے گریز کر رہے ہیں یہاں تک کہ جنگجو گروہ کے کابل پر قبضے کا موردِ الزام بھی امریکہ ہی کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔

طالبان کے بارے میں لب و لہجہ اس قدر تبدیل ہو گیا ہے کہ اصلاح پسند اخبار ’شرق‘ نے اپنی 24 اگست کی اشاعت میں تحریر کیا تھا کہ ایرانی شدت پسند ’فیکٹری سیٹنگ‘ کر رہے ہیں اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ طالبان واقعی بدل گئے ہیں۔

افغانستان

،تصویر کا ذریعہIrna

،تصویر کا کیپشن’ایران افغانستان سے تجارتی تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے‘

’کیھان‘ نے اپنے ایک مضمون، جو ’افغانستان میں امریکی ترکہ‘ کے نام سے شائع ہوا، میں لکھا کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنے پیچھے بدعنوانی، کرپشن، عدم تحفظ اور طالبان کو چھوڑا ہے۔ ایک اور مضمون میں اس نے افغانستان سے امریکی انخلا کو تاریخ کی ’بدترین ہتک‘ قرار دیتے ہوئے اس پر رائے زنی کی۔ ایک اور اخبار ’وطنِ امروز‘ نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں ایک مستحکم سیاسی ڈھانچہ اور ایک مضبوط فوج بنائے بغیر نکل گیا۔

پاسدارن انقلاب کے اخبار ’جوان‘ نے ایک مضمون میں لکھا کہ طالبان کو ایک معتدل قوت کے طور پر پیش نہیں کیا جانا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی اس گروپ پر تنقید بھی نہیں کی جانی چاہیے۔

قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے ایران کے ٹی وی چینل ’افق‘ کو ویڈیو رابطے کے ذریعے 21 اگست کو فارسی زبان میں 20 منٹ طویل انٹرویو دیا۔ یہ انٹرویو اس قدر طویل ہو گیا کہ نعیم نے انٹرویو کے آخری میں خود کہا کہ ان کے پاس صرف دس منٹ تھے لیکن انٹرویو بہت طویل ہو گیا۔

نعیم نے کہا کہ طالبان کا اپنا کوئی نشریاتی ادارہ نہیں ہے اور ایک ایرانی صارف نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا کہ ’اُفق ٹی وی طالبان کو اپنی خدمات فراہم کر سکتا ہے‘

یہ بھی پڑھیے

اگلے دن ہی قطر میں موجود طالبان کے ترجمان سہیل شاہیں نے انگریزی زبان کے نشریاتی ادارے پریس ٹی وی پر ایک انٹرویو میں کہا کہ طالبان تمام ملکوں سے بہتر تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔

شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والوں کے اکثریتی ملک ایران کے ماضی میں سنی العقیدہ لوگوں کے گروہ طالبان کے ساتھ بہت سے مسائل رہے ہیں، جن میں افغانستان میں شیعہ افراد پر جبر اور ان کو نشانہ بنائے جانے کے بارے میں شکایات بھی تھیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان سنہ 1998 میں مزار شریف میں آٹھ ایرانی سفارت کاروں کے قتل کے بعد جنگ کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا تھا۔ اس واردات کا الزام ایران نے طالبان پر لگایا تھا لیکن طالبان کا کہنا تھا کہ یہ ’گمراہ عناصر‘ کا کام ہے۔

افغانستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

طالبان کے بارے میں ایران کا رویہ کیوں بدل گیا ہے؟

تہران پر جب سے امریکہ کی طرف سے پابندیاں عائد کی گئی ہیں اس کے بعد سے افغانستان ایران کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار بن گیا ہے۔

ایران کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ایران نے اپنے گذشتہ مالی سال (مارچ 2020 - 2021) میں افغانستان کو 2.3 ارب ڈالر مالیت کی اشیا فروخت یا برآمد کیں۔ افغانستان ایران کا ترکی، متحدہ عرب امارات، عراق اور چین کے بعد پانچواں بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ ایک قدامت پسند ادارے سٹوڈنٹ نیوز نیٹ ورک کے مطابق افغانستان تقریباً ایران کی آٹھ فیصد مصنوعات کی منڈی ہے۔

بین الاقوامی معاشی پابندیوں کی وجہ سے ایران کے لیے اپنے بیرون ملک زرمبادلہ کے ذخائر تک رسائی بھی ممکن نہیں رہی۔ اس ہی وجہ سے ایران کی سرحد کے قریب واقع افغانستان کے شہر ہرات کی ایران کے لیے بڑی اہمیت ہے اور یہ اس کے لیے ’ہارڈ کرنسی‘ یا نقد رقم حاصل کرنے کا بڑا ذریعہ ہے۔

امریکی ڈالر ہرات شہر میں ایران کے مقابلے میں بہت مناسب قیمت میں دستیاب ہوتا ہے اور ایران نہیں چاہیے گا کہ وہ ڈالر حاصل کرنے کے اپنے ایک اہم ذریعے کو کھو دے۔

ایران کےایک سرکردہ معاشی ماہر سعید لیلاز کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ہرات اور عراق میں سلیمانیہ کے شہر کی وجہ سے ایران کو کبھی ڈالروں کی کمی نہیں ہوئی۔

ایران افغانستان چیمبر آف کامرس کے نائب سربراہ آلادین میر محمد صدیقی نے اصلاحت پسند اخبار ’اعتبار‘ کو اس ہفتے بتایا کہ تہران اور کابل کے درمیان تجارتی تعلقات اس وقت چلتے رہیں گے جب تک طالبان کی معاشی پالیسیاں وہی رہیں گی جن کی انھوں نے یقین دہانی کرائی ہے۔

مزید پڑھیے

ایران کے پاس غیر ملکی تجارت کے لیے زیادہ راستے نہیں ہیں کیونکہ بہت سے ملک امریکہ کی طرف سے ایران پر عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے ایران کے ساتھ تجارت کرنے سے کتراتے ہیں۔

بیرونی تجارت کے راستے مسدود ہونے کی وجہ سے ایران افغانستان سے اپنے تجارتی راستے کھلے رکھنے کا شدید خواہشمند ہو گا، قطع نظر اس بات کے کہ افغانستان میں کون برسراقتدار ہے۔

اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ایران امریکی پابندیوں کی وجہ سے طالبان سے تعلقات بہتر رکھنا چاہتا ہے۔ درحقیقت طالبان اور تہران دونوں واشنگٹن سے اس قدر نفرت کرتے ہیں کہ قدامت پسند اخبار ’وطنِ امروز‘ نے ایک مرتبہ یہ تجویز کیا تھا کہ امریکہ سے دشمنی افغانستان کے جنگجو گروہ کے ساتھ ایران کے مذاکرات کی بنیاد بن سکتی ہے۔