انڈیا الیکشن 2019: نریندر مودی ’تاریخی فتح‘ پر عوام کے شکرگزار

انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک میں ہونے والے عام انتخابات واضح سبقت سے جیت لیے ہیں جس کے بعد نریندر مودی نے ’تاریخی مینڈیٹ‘ پر ووٹروں کا شکریہ ادا کیا ہے۔

دہلی میں فتح کا جشن منانے کے لیے جمع ہونے والے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سب ایک نیا انڈیا چاہتے ہیں۔ میں سر جھکا کر آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔‘

نئی دلی سے نامہ نگار شکیل اختر کے مطابق انڈین الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو لوک سبھا کی 542 نشستوں میں سے بی جے پی 290 نشستیں جیت چکی ہے جبکہ مزید 13 پر اس کے امیدواروں کو سبقت حاصل ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے سربراہ راہل گاندھی نے شکست تسلیم کر لی ہے اور کہا ہے کہ مودی کا انتخاب عوام کا حکم ہے جسے وہ تسلیم کرتے ہیں۔

اب تک کے نتائج کیا ہیں؟

بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں مجموعی طور پر 351 نشستیں حاصل کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔

اس کے برعکس کانگریس پارٹی کے 50 امیدوار جیت پائے ہیں جبکہ دو نشستوں پر اس کے امیدوار آگے ہیں۔ اپوزیشن اتحاد کل 86 نشستیں لیتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ دیگر جماعتوں کے حصے میں 105 نشستیں آئی ہیں۔

انڈین انتخابات کے تازہ ترین نتائج

اہم نتائج میں کانگریس پارٹی کے صدر راہل گاندھی امیٹھی سے اپنی آبائی نشست بی جے پی کی امیدوار سمرتی ایرانی کے مقابلے میں ہار گئے ہیں تاہم وہ ملک کی جنوبی ریاست کیرالا سے بھی امیدوار تھے جہاں سے وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

نریندر مودی نے وارانسی جبکہ راہل گاندھی کی والدہ سونیا گاندھی نے رائے بریلی سے اپنی اپنی نشستیں باآسانی جیت لی ہیں۔

اعدادوشمار کیا کہتے ہیں؟

انڈیا میں مرکزی حکومت بنانے کے لیے 272 نشستیں درکار ہیں اور بی جے پی کو حکومت سازی کے لیے سادہ اکثریت اپنے بل بوتے پر ہی مل گئی ہے۔

بی جے پی نے 2014 کے مقابلے میں 22 نشستیں زیادہ جیتی ہیں جبکہ حکومتی اتحاد کی نشستوں کی تعداد میں بھی 15 نشستوں کا اضافہ ہوا ہے۔ سنہ 2014 میں بی جے پی نے 282 نشستیں جیتی تھیں جو کسی بھی جماعت کی 30 برسوں میں سب سے بڑی کامیابی تھی۔ ان انتخابات میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو کل ملا کر 336 نشستیں ملی تھیں۔

کانگریس کو سنہ 2014 میں 44 نشستیں ملی تھیں اور اس مرتبہ اس تعداد میں مزید 8 نشستوں کا ہی اضافہ ہو سکا ہے۔

اس بار انڈیا کے اہل ووٹروں کی کل تعداد 90 کروڑ تھی جنہوں نے اسے دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا الیکشن بنا دیا تھا۔

ریاستوں میں کیا صورتحال ہے؟

بی جے پی راجستھان، گجرات، ہریانہ اور دہلی میں کلین سویپ کی طرف بڑھ رہی ہے جبکہ اترپردیش، مہاراشٹر، مغربی بنگال، اڑیسہ اور بہار میں بھی اس کی کارکردگی بہت اچھی رہی ہے۔

بی جے پی کا اتحاد شمالی ریاست اترپردیش میں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا دکھائی دے رہا ہے جو کہ مبصرین کے لیے حیران کن ہے کیونکہ یہاں بی جے پی کا مقابلہ دو طاقتور علاقائی جماعتوں بہوجن سماج پارٹی اور سماجوادی پارٹی کے اتحاد سے تھا۔

یہ دونوں جماعتیں ماضی میں سیاسی حریف رہی ہیں لیکن بی جے پی کے مقابلے کے لیے اس بار اکٹھی میدان میں اتری تھیں۔

مغربی بنگال میں بھی بی جے پی کی کارکردگی اندازوں سے بہتر رہی ہے اور گزشتہ انتخابات میں دو نشستوں کے مقابلے میں اس مرتبہ وہ 17 نشستیں جیتتی دکھائی دے رہی ہے۔

تاہم انڈیا کی پانچ جنوبی ریاستوں میں سے چار، آندھرا پردیش، تلنگانہ، تمل ناڈو اور کیرالا پر اس بار بھی مودی کا جادو چلتا دکھائی نہیں دے رہا اور وہاں حکمران اتحاد 91 میں سے صرف تین نشستیں ہی جیت پایا ہے۔

پنجاب میں بھی بی جے پی کی کارکردگی کچھ اچھی نہیں رہی ہے اور امریندر سنگھ نے کانگریس کو وہاں فتح دلوا دی ہے۔

مودی نے اپنے خطاب میں کیا کہا؟

نریندر مودی نے پہلے تو ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کامیابی دلوانے پر انڈین عوام کا شکریہ ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’شکریہ انڈیا۔ ہمارے اتحاد پر اعتماد کا اظہار ہمیں منکسرالمزاج بناتا ہے اور ہمیں ہمت دے رہا ہے کہ لوگوں کی امیدیں پوری کرنے کے لیے مزید محنت کریں۔‘

بعدازاں دہلی میں بی جے پی کے ہیڈکوارٹر میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا میں بس اب دو ذاتیں ہیں۔ غریب اور انھیں غربت سے نکالنے کے لیے کام کرنے والے۔ ہمیں دونوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ الیکشن سیاستدانوں نے نہیں عوام نے لڑا ہے اور اس ملک کے عوام ہی ہیں جو فتحیاب ہوئے ہیں۔‘

نریندر مودی نے کہا کہ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ انڈیا کامیاب ہو گا اور یہ کہ انھوں نے ہمیشہ عوام کے لیے کام کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میں فخر محسوس کر رہا ہوں۔ ہم کبھی نہیں رکیں گے اور نہ ہی شکست تسلیم کریں گے۔ بی جے پی ہمیشہ ملک کے لیے کام کرتی رہے گی۔‘

عالمی ردعمل

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی نریندر مودی کو الیکشن جیتنے پر مبارکباد دی ہے اور ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی ہے۔

انھوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور اتحادیوں کی کامیابی پر میں وزیراعظم نریندر مودی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور جنوبی ایشیا میں امن اور خطے کی ترقی و خوشحالی کے لیے ان کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرامید ہوں۔‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پیغام میں وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ مودی کی اقتدار میں واپسی کے نتیجے میں انڈیا اور امریکہ کی شراکت کے حوالے سے بہترین چیزیں ہوں گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ مودی کے ساتھ اپنے اہم کام کو مل کر جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔

جماعتوں کے ہیڈکوارٹرز میں کیا صورتحال رہی

نامہ نگار نتن شریواستو کے مطابق جیسے جیسے نتائج سامنے آتے رہے، دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی دفتر میں ان کے ہزاروں حمایتی جشن منانے کے لیے جمع ہو گئے۔ 

جس نوعیت کی برتری ان کی جماعت نے حاصل کی ہے، بی جے پی کی رہنماؤں نہایت خوشی کا اظہار کیا ہے کیونکہ یہ نتائج ایگزٹ پولز میں کی جانے والی پیشن گوئی سے کہیں زیادہ ہے۔ 

ادھر کانگریس کے صدر دفتر کے باہر موجود نامہ نگار زبیر احمد کا کہنا ہے کہ کانگریس کے حامیوں کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔

ان کے مطابق وہ اپنی شکست کی وجوہات پر بھی بات نہیں کر رہے۔ نامہ نگار کا کہنا ہے کہ کانگریس کو اس الیکشن میں حیران کن فتح کی امید تو نہیں تھی لیکن وہ گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں کہیں بہتر کارکردگی کے لیے پرامید تھی۔

مودی کو درپیش چیلنجز کیا ہیں؟

انڈیا میں بڑھتی ہوئی بےروزگاری اور کساد بازاری کے خطرات آنے والے مہنیوں میں نریندر مودی کی نئی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس نئی حکومت پر دباؤ ہو گا کہ وہ چند ماہ میں نئی نوکریوں کی فراہمی کے بارے میں اقدامات کرے۔

مودی حکومت کے گزشتہ دور میں انڈیا کی معیشت جو کہ دنیا کی چھٹی بڑی معیشت ہے، اپنی رفتار کسی حد تک کھو بیٹھی۔ افشا ہونے والی ایک حکومتی رپورٹ کے مطابق رواں برس انڈیا میں بےروزگاری کی شرح 1970 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔

کسانوں کو بھی امید ہے کہ مودی ان کے مسائل کو ترجیح دیں گے کیونکہ فصلوں کی تباہی اور اجناس کی منڈیوں میں کم قیمت لگنے سے ان کی آمدن کم ہوئی ہے۔

بہت سے لوگ اس الیکشن کو انڈیا کی شناخت اور اقلیتوں کے تحفظ کے تناظر میں دیکھ رہے تھے۔ انڈیا میں قوم پرستی گزشتہ پانچ برس میں بہت پھلی پھولی ہے اور اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

ملک کے ان حصوں میں بی جے پی چند ہی سیٹووں پر امیدوار کھڑے کرتی ہے اور زیادہ حلقوں میں مضبوط علاقائی امیدواروں کے ساتھ اتحاد میں انتخاب لڑ رہی ہے۔