سپریم کورٹ کا رادھا کشن واقعے کا از خود نوٹس

 کرشن رادھا واقعہ کیس میں نومبر کے اوائل میں مقامی پولیس نے 43 افراد کو گرفتار  کیا تھا

،تصویر کا ذریعہGetty

،تصویر کا کیپشن کرشن رادھا واقعہ کیس میں نومبر کے اوائل میں مقامی پولیس نے 43 افراد کو گرفتار کیا تھا

پاکستان کے سپریم کورٹ نے صوبہ پنجاب کے ضلع قصور کے نواحی علاقے کوٹ رادھاکشن میں مبینہ طور پر توہین مذہب کے نام پر میاں بیوی کو ہلاک کرنے کے واقعے کا از خود نوٹس لیا ہے۔

ہمارے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق عدالت نے سنیچر کو پنجاب حکومت سے اس واقعے سے متعلق تین روز کے اندر ایک جامع رپورٹ طلب کی ہے۔

عدالتی طریقۂ کار کے مطابق اگر پنجاب حکومت کی طرف سے جمع کردہ رپورٹ عدالت کی جانب سے تسلی بخش قرار دی گئی تو از خود نوٹس نمٹا دیا جائے گا اور اگر تسلی بخش قرار نہیں پائی تو پنجاب حکومت کے متعلقہ حکام کومزید کارروائی کے لیے طلب کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں عدالت نے اقلیتیوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے بارے میں وفاق سمیت چاروں صوبوں سے رپورٹ طلب کی ہے۔

خیال رہے کہ کرشن رادھا واقعہ کیس میں نومبر کے اوائل میں مقامی پولیس نے 43 افراد کو گرفتار کیا تھا۔ گرفتار کیے جانے والوں میں اینٹوں کے بھٹے کا مالک یوسف گجر بھی شامل تھا۔

اس مقدمے کے تفتیشی افسر محمد مقبول نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ گرفتار ہونے والے ملزمان کو مقامی افراد اور مقتولین کے رشتہ داروں کی نشاندہی پر گرفتار کیا گیا ہے۔

اُنھوں نے کہا تھا کہ ملزموں کے خلاف قتل، بلوے اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ انھیں لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

محمد مقبول کے مطابق ملزمان نے مقتول شہزاد مسیح اور اُس کی بیوی شمع کو جلانے سے پہلے تشدد کا نشانہ بنایا اور بعدازاں اُنھیں اس آگ میں پھینک دیا جو کچی اینٹوں کو پکانے کے لیے جلائی گئی تھی۔

توہین مذہب کے نام پر اقلیتی برادریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے

،تصویر کا ذریعہepa

،تصویر کا کیپشنتوہین مذہب کے نام پر اقلیتی برادریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے

پولیس افسر کے مطابق عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جس وقت ان دونوں میاں بیوی کو آگ میں پھینکا گیا اس وقت وہ نیم مردہ حالت میں تھے۔

مقامی پولیس کے مطابق اُنھیں مقتولین کی طرف سے قرآن پاک جلانے سے متعلق ابتدائی طور پر کوئی شواہد نہیں ملے تھے۔ پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ جس وقت یہ واقعہ رونما ہوا تو اُس وقت بھٹے کا مالک یوسف گجر وہاں پر موجود تھا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے اس کی جامع تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا۔

اُدھر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ حکومت پاکستان اس شادی شدہ جوڑے کو زندہ جلانے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔

تنظیم کا کہنا تھا کہ ہلاک شدگان کے بارے میں ایک دن پہلے یہ افواہ پھیلی تھی کہ انھوں نے قرآن نذر آتش کردیا تھا جس پر لوگوں کے ہجوم نے انھیں حملہ کر کے قتل کر دیا، حالانکہ اس الزام کی حقیقت اب تک واضح نہیں۔

پولیس کے مطابق دونوں میاں بیوی اینٹوں کے بھٹے پر مزدوری کرتے تھے۔