’قصور میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتے‘

مختار اٹھوال اور ان کے خاندان نے بدھ کو لاہور میں پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا
،تصویر کا کیپشنمختار اٹھوال اور ان کے خاندان نے بدھ کو لاہور میں پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا
    • مصنف, شمائلہ جعفری
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور

پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع قصور کے نواحی گاؤں کوٹ رادھا کشن میں مبینہ طور پر توہینِ مذہب کے الزام پر قتل ہونی والی خاتون شمع مسیح کے والد نے اس واقعے کی تحقیقات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کے مقدمے میں مدعی بننا چاہتے تھے لیکن پولیس خود مدعی بن گئی ہے۔

مختار اٹھوال اور ان کے خاندان نے بدھ کو لاہور میں پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ پولیس اپنی مدعیت میں درج کیے گئے مقدمے پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔

شمع اور ان کے شوہر شہزاد مسیح کو چند روز پہلے لاہور سے 60 کلو میٹر کے فاصلے پر کوٹ رادھا کشن کے علاقے میں مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام میں ہلاک کر کے اینٹوں کے بھٹے میں پھینک دیا گیا تھا۔

اس قتل کے مقدمے کا مدعی ایک اے ایس آئی کو بنایا گیا ہے۔

مختار اٹھوال کا کہنا تھا ’پرچے میں پولیس شامل ہوگئی ہے۔ ہم پولیس کو مدعی نہیں مانتے۔ میں خود مدعی بننا چاہتا ہوں۔ میں ایف آئی آر سے مطمئن نہیں ہوں۔‘

مختار اٹھوال نے واقعے کی تحقیات کے لیے انکوائری کمیٹی بنانے اور مقدمے کی سماعت لاہور ہائی کورٹ میں کرنے کا مطالبہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کا خاندان قصور میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتے اس لیے چاہتے ہیں کہ مقدمے کی سماعت لاہور میں ہی ہو۔

شمع کے والد نے بی بی سی کو اپنی بیٹی اور ان کے شوہر شہزاد مسیح کے قتل کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ’ شمع آٹا گوندھ رہی تھی جب لوگوں نے آٹے کو ٹھڈے مارے اور اسے گھسیٹتے ہوئے گھر سے باہر لے گئے، اس پر پٹرول پھینکا اور اسے بھٹے میں پھینک دیا۔‘

مختار اٹھوال کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان نے علاقہ چھوڑ دیا ہے
،تصویر کا کیپشنمختار اٹھوال کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان نے علاقہ چھوڑ دیا ہے

مختار اٹھوال کا کہنا ہے کہ جب شمع کو بھٹے میں پھینکا گیا تو اس وقت وہ زندہ تھی اور چار ماہ کی حاملہ بھی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ شمع اور شہزاد سے بھٹہ مالک کا جھگڑا پیشگی پر ہوا۔ وہ دونوں بھٹہ چھوڑ کر جانا چاہتے تھے لیکن بھٹہ مالک کا کہنا تھا کہ ابھی ان کا قرض باقی ہے۔ اسی بات پر جھگڑا ہوا اور پھر بھٹہ مالک نے اپنے منشیوں کو ساتھ مل کر اسے مذہبی رنگ دیا۔

مختار اٹھوال کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان نے علاقہ چھوڑ دیا ہے۔ پولیس نے ان کی رضامندی اور خواہش کے خلاف رات کو ہی شمع اور شہزاد کو دفنا دیا اور اس وقت ہم وہاں موجود نہیں تھے۔

مختار اٹھوال نے انصاف ملنے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا۔