’پولیس اور عدلیہ جنید کو سزا دینے پر تُلی ہوئی ہیں‘

 جنید کے والد ہیومن رائٹس کمیشن کی تشکیل کردہ ٹیم سے پرامید ہیں

،تصویر کا ذریعہBBC World Service

،تصویر کا کیپشن جنید کے والد ہیومن رائٹس کمیشن کی تشکیل کردہ ٹیم سے پرامید ہیں
    • مصنف, ارم عباسی
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، ملتان

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وکیل راشد رحمان کے قتل کے بعد توہین رسالت کے الزام میں گرفتار جنید حفیظ تاحال اپنے مستقبل کے فیصلے کے منتظر ہیں۔

جنید کا دفاع کرنے پر راشد رحمان کو دو ماہ قبل قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد جمعرات کو مقدمے کی پہلی سماعت ایڈیشنل سیشن جج شہباز علی پراچہ کی غیر حاضری کی وجہ سے ملتوی ہو گئی۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے جنید کا مقدمہ لڑنے کے لیے آٹھ وکلا کی ٹیم تشکیل دی ہے۔

ملتان میں ان کے وکیل شہباز گورمانی کا کہنا ہے کہ عدالت اور پولیس آپس میں ملی ہوئی ہیں اور سماجی دباؤ کے باعث ہر صورت میں جنید حفیظ کو سزا دلوانا چاہتے ہیں۔

راجن پور میں جنید کے والد سے ان کے پرنٹنگ پریس میں ملاقات ہوئی۔ ان کے بیٹے کے مقدمے کا فیصلہ تو ابھی آنا ہے مگر نہ صرف ان کے خاندان والوں نے بلکہ گاہکوں نے بھی ادھر کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔

پہلے سے سہمے ہوئے خاندان کو راشد رحمان کی ہلاکت نے مزید خوف زدہ کر دیا ہے۔ اب تو وہ میڈیا میں آنے سے بھی ڈرتے ہیں۔

بی بی سی کے اصرار پر انھوں بتایا: ’راشد رحمان ہمارے لیے فرشتہ تھے اور ان کے جانے کے بعد ہم بہت غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ چند دوست مشورہ دیتے ہیں کہ احتیاط سے سفر کریں کیونکہ میں اپنے گھر کا واحد سہارا ہوں۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ اب کیس کا کیا ہو گا، کیسے چلے گا۔‘

تاہم ہیومن رائٹس کمیشن کی تشکیل کردہ ٹیم سے وہ پرامید ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وکیل راشد رحمان کے قتل کی تفتیش کرنے والے پولیس اہلکار کا بھی اس واقعے کے چند ہفتے بعد تبادلہ کر دیا گیا۔ بعض وکلا کے بقول اس تبادلے نے تحقیقات کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

اس سلسلے میں جنید کے مخالف وکیل ایڈووکیٹ ذوالفقار سدھو کہتے ہیں کہ وکیل کے قتل سے مقدمہ اثر انداز نہیں ہو گا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’عدالت کسی معاشرتی دباؤ کا شکار نہیں ہے اور وہ شواہد پر بات کریں گے۔ اس لیے راشد رحمان کے قتل کا اس مقدمے پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔‘

گذشتہ برس گرفتار ہونے والے جنید بہاءُالدین زکریا یونیورسٹی میں انگلش کے پروفیسر تھے۔ لیکن یونیورسٹی میں طلبہ تو کیا اساتذہ بھی جنید کے نام پر چپ سادھ لیتے ہیں۔ بیشتر توہینِ رسالت کے معاملے پر تو بات کرنے سے ڈرتے تھے لیکن جنید کی ذہانت کے قصیدے سب نے سنے۔

یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’میں نے سنا ہے وہ بہت لائق تھے اور امریکہ سے سکالرشپ پر پڑھ کر آئے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ امریکہ کی ثقافت اور خیالات نے انھیں ایکسٹرا سیکیولر بنا دیا۔‘

اسی یونیورٹسی کےاسلامی جمعیت طلبہ کے طالب علم نے الزام عائد کیا: ’جنید نے فیس بک پر توہین آمیز مواد پوسٹ کیا تھا۔ جس کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور جنید کو گرفتار کر لیا گیا۔‘

ملتان کی کچہری میں جنید کے وکیل شہباز گورمانی سے بات کی تو انھوں نے کہا: ’پولیس اور عدلیہ دونوں جنید کو سزا دینے پر تُلی ہوئی ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’پولیس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے 13 مارچ کو جنید کو حراست میں لیا اور اسی دن ان کے لیپ ٹاپ میں فیس بک اکاؤنٹ کھلوا کر توہین آمیز مواد کے پرنٹس لیے جبکہ پرنٹ آؤٹ پر تاریخ 13، 14 اور فروری کے مہینے کی مختلف تاریخیں ہیں۔ اور خود پولیس کوئی اور بیان دے رہی ہے۔‘

انھوں نے عدلیہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا: ’میں نے عدالت سے جنید کے خلاف گواہی دینے والے کی پاور آف اٹارنی کی کاپی مانگی تو کورٹ نے کہا اس پر سٹیمپ اور جج کے دستـخط نہیں ہیں اس لیے قانونی طور پر یہ کیس کا حصہ نہیں ہے، اس لیے آپ کو نہیں مل سکتی۔ مگر ایک دن بعد جب میں جج صاحبان کے اب تک کے حکم نامے لینے عدالت گیا تو عدالت نے کہا کہ آپ سے غلطی ہو گئی ہے آپ نے صحیح سے دیکھا نہیں کیونکہ گواہ تو مقدمے کا حصہ ہے کیونکہ کاپی پر جج صاحب کے دستخط موجود ہیں۔‘

جنید آٹھویں جماعت کے بعد سے ہمیشہ اول پوزیشن لیتے آئے ہیں اور پی ایچ ڈی کے لیے اس برس ان کا امریکہ پھر جانے کا ارادہ تھا۔ وہ پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی ہیں۔