جھنگ میں 68 وکلا کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ

،تصویر کا ذریعہAFP
پاکستان میں صوبہ پنجاب کے علاقے جھنگ میں 68 وکلا کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
یہ مقدمہ ضلع جھنگ کی پولیس نے درج کیا ہے۔ مقامی صحافی عدنان نور نے بی بی سی کو بتایا کہ وکلا پر یہ مقدمہ ایک احتجاج کے دوران نعرے بازی میں استعمال کیے گئے کلمات کی وجہ سے قائم کیا گیا ہے۔
<link type="page"><caption> ’قانون کے خاتمے یا اصلاح تک عمل درآمد روک دیں‘</caption><url href="’توہین مذہب قانون کو ختم یا اصلاح کیے جانے تک اس پر عملدرآمد روک دیا جائے‘" platform="highweb"/></link>
<link type="page"><caption> ’توہین رسالت کےغلط الزام پر بھی سزائے موت ‘</caption><url href="http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/09/130918_blasphemy_separate_law_zz.shtml" platform="highweb"/></link>
انھوں نے بتایا کہ ’سات مئی کو ڈسٹرکٹ بار ضلع جھنگ کے آفتاب ندیم ایڈووکیٹ کو پولیس نے مختلف دفعات کے تحت حراست میں لیا تھا۔ دوسرے روز وکلا نے تھانہ کوتوالی کے ایس ایچ او عمر دراز کے خلاف احتجاج کیا، تاہم ارشد محمود نامی ایک مقامی شخص نے ڈسٹرکٹ بار جھنگ کے نو نامزد اور سات دیگر وکلا کے خلاف توہینِ مذہب کی درخواست دے دی۔‘

،تصویر کا ذریعہAFP
ارشد محمود نامی مقامی شخص کا کہنا ہے کہ وکلا نے ایس ایچ او کا نام لے کر گالیاں دی ہیں۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ویڈیو موجود ہے جس میں وکلا نے گالیاں دی ہیں۔
مدعی کے مطابق: ’ایڈوکیٹ ضیاء حسین کاظمی، سید نصرت بخاری ایڈووکیٹ، نواز بلوچ ایڈووکیٹ، مرزا سلمان حیدر ایڈووکیٹ، سید فخر عباس شاہ، آفتاب نوید ایڈووکیٹ، حیدر ایڈووکیٹ، سلمانہ ایڈووکیٹ اور علی رضا رضوی گالیاں دیتے رہے ہیں۔‘
بتایا جاتا ہے کہ وکلا میں سے زیادہ تر کا تعلق شیعہ برادری سے ہے۔ ایس ایچ او عمر دراز خود کو صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کا رشتہ دار بتاتے ہیں۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر وکلا اور ضلعی انتظامیہ کے درمیان بات چیت جاری ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
دوسری جانب جامعہ بنوریہ کے مہتمم مفتی محمد نعیم کا کہنا ہے کہ جس نے بھی ایف آئی آر کٹوائی ہے وہ خود مجرم ہیں اور فرقہ واریت کو پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’چونکہ ایس ایچ او کا نام عمر تھا، اس لیے وکلا نے ایس ایچ او کے نام پر بات کی، لیکن اسے حضرت عمر کے نام کے ساتھ نسبت کرنا غلط ہے۔‘
مفتی نعیم کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ اس قسم کے معاملات پر توجہ دے اور عدالت کا کام ہے کہ وہ معاملے کی حقیقت کو بھی دیکھے کیونکہ یہ آگ لگانے والی بات ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرا نام محمد نعیم ہے لیکن اگر میرے حلاف ایف آئی آر کٹی تو اس کا مطلب یہ نہیں لیا جا سکتا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد کی توہین ہوئی ہے۔
پچھلے کچھ برسوں میں پاکستان میں توہینِ مذہب کے الزامات متنازع رہے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی جانب سے اس قانون میں اصلاح اور اس پر عمل درآمد کے طریقۂ کار کی وضاحت کے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں۔







