آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے

مجھے مرکزی ویب سائٹ یا ورژن پر لے جائیں

کم ڈیٹا استعمال کرنے والے ورژن کے بارے میں مزید جانیں

قومی اسمبلی کا اجلاس پیر تک ملتوی، آئینی ترمیم کا بل پیش نہ ہو سکا

قومی اسمبلی کا اجلاس اتوار کو بار بار موخر ہونے کے بعد رات قریب 11 بجے سپیکر ایاز صادق کی صدارت میں شروع ہوا۔ تاہم سپیکر نے اسے کچھ ہی منٹ بعد پیر کی صبح ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کر دیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے آئینی ترمیم پیش کرنے میں تاخیر کی وجہ مشاورتی عمل کو قرار دیا ہے۔ ادھر مولانا فضل الرحمان کی جماعت جے یو آئی ف نے حکومت کو جلد بازی نہ کرنے کی تجویز دی ہے۔

خلاصہ

  • قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کو ساڑھے 12 بجے تک ملتوی
  • جمیعت علمائے اسلام ف نے حکومت کو آئینی ترامیم سے متعلق اجلاس موخر کرنے کا مشورہ دیا تھا
  • اتوار کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آئینی ترمیم پیش کیے جانے کا امکان تھا مگر مشاورتی عمل کے باعث اس میں تاخیر ہوئی
  • وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کے مطابق یہ تاثر غلط ہے کہ کسی خاص شخصیت کے لیے آئینی ترمیم لائی جا رہی ہیں
  • بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے مجوزہ آئینی ترامیم کی مکمل حمایت کے لیے دو ہزار لاپتہ افراد کی بازیابی کی شرط پیش کی ہے
  • تحریک انصاف کے سربراہ بیرسٹر گوہر علی خان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ حکومت عدالتی اصلاحات کے ذریعے عدلیہ کے اختیارات کم کرنا چاہتی ہے

لائیو کوریج

  1. کیا پاکستان واقعی ایسا میزائل بنا سکتا ہے جو امریکہ تک پہنچ جائے؟

  2. یہ صفحہ اب مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے

    بی بی سی اردو کی لائیو پیج کوریج کے لیے اس لنک پر کلک کیجیے۔

  3. بریکنگ, قومی اسمبلی کا اجلاس پیر تک ملتوی

    پاکستان کے ایوان زیریں قومی اسمبلی کا اجلاس اتوار کو بار بار موخر ہونے کے بعد رات قریب 11 بجے سپیکر ایاز صادق کی صدارت میں شروع ہوا۔ تاہم سپیکر نے اسے کچھ ہی منٹ بعد پیر کی صبح ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کر دیا ہے۔

    سرکاری چینل پی ٹی وی نے اسے ایک ’تاریخی اجلاس‘ قرار دیا اور کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے آئینی ترمیم کا بل پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

    اتوار کو حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں نے مجوزہ ترامیم پر کئی گھنٹوں تک مشاورت کی ہے۔

  4. حکومت کو کہا تھا ترمیم لانے میں جلدی نہ کریں: عبدالغفور حیدری

    جمیعت علمائے اسلام ف کے مرکزی رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ حکومت کو آئینی ترامیم سے متعلق اجلاس موخر کرنے کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ جب تک ارکان مسودہ نہیں پڑھیں گے تب تک وہ ووٹ کیسے دے سکتے ہیں۔

    اسلام آباد میں عبدالغفور حیدری نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ ’ہمیں ابھی تک مسودہ نہیں ملا کہ ہم جان سکیں کہ اس میں کیا لکھا گیا ہے۔ ہم نے کہا جب تک مسودہ نہیں پڑھیں گے، ووٹ کیسے دے سکتے ہیں؟‘

    عبدالغفور حیدری کے مطابق ’ہم نے حکومت کو کہا تھا ترمیم لانے میں جلدی نہ کریں۔ ہم اجلاس میں اپنا موقف کھل کر رکھیں گے۔‘

    یاد رہے کہ موجودہ صورت حال میں جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اس وقت سیاسی جماعتوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

    آج پارلیمان میں آئینی ترمیم پیش کیے جانے سے قبل ان کی اپنی رہائش گاہ پر حکومتی اتحاد اور اپوزیشن جماعت تحریک انصاف دونوں کے وفود سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔

    حکومت کو اس آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ اسے مولانا فضل الرحمان کی جماعت کے آٹھ ارکان کی حمایت درکار ہوگی تاکہ اسے قومی اسمبلی میں 224 ووٹ حاصل ہوسکیں۔

    مولانا عبدالغفور حیدری نے میڈیا سے گفتگو میں مزید کہا کہ ’اجلاس جلدی میں بلایا گیا۔ ہم نے مشورہ دیا ہے کہ اجلاس کو موخر کریں تاکہ مشاورت ہو۔ اگر حکومت عجلت سے کام لیتی ہے تو شاید ہم اسے سپورٹ نہ کریں۔‘

  5. خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں توسیع کا نوٹیفیکیشن جاری، سینیٹر شبلی فراز اور علی ظفر سمیت 12 ارکان شامل

    پارلیمنٹ کی کارروائی کو موثر طور سے چلانے کے لیے سپیکر قومی اسمبلی کی تشکیل دی گئی خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں ایوان بالا کے 12 ارکان کو شامل کرلیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے ایوان کی کارروائی چلانے کے لیے حکومتی اور اپوزیشن ارکان پر مشتمل خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں 12 ستمبر کے نوٹیفیکیشن کے مطابق 18 ارکان شامل تھے اب اس میں مزید 12 اراکین پارلیمنٹ کو شامل کیا ہے۔

    قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق ان میں مسلم لیگ ن کے سینیٹرعرفان صدیقی، پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان پی ٹی آئی کے سینیٹر شبلی فراز اور سینیٹر علی ظفر کو بھی کمیٹی میں شمولیت دی گئی ہے۔

    نوٹیفیکیشن کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر عمرفاروق کو بھی کمیٹی میں شامل کر دیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل ا خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں اسحاق ڈار، خواجہ آصف، خورشید شاہ، خالد مقبول صدیقی ، امین الحق، چوہدری سالک، عبدالعلیم خان سمیت 18 ارکان شامل تھے۔

    خصوصی کمیٹی قومی اسمبلی میں قواعد و ضوابط اورکارروائی کے طریقہ کار 2007 اور قومی اسمبلی کی کارروائی کو مؤثر طریقے سے چلانے سے متعلق امور کو زیرغور لا کر سفارشات مرتب کرے گی۔

  6. اختر مینگل: آئینی ترامیم کی حمایت ’دو ہزار لاپتا افراد کی بازیابی‘ سے مشروط, محمد کاظم، بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ

    بلوچستان نیشنل پارٹی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے مجوزہ آئینی ترامیم کی مکمل حمایت کے لیے دو ہزار لاپتا افراد کی بازیابی کی شرط پیش کی ہے۔

    بلوچستان سے تعلق رکھنے والی جماعت نیشنل پارٹی نے کہا ہے کہ اب تک حکومت نے جن آئینی ترامیم کے حوالے سے پارٹی سے مشاورت کی ہے پارٹی ان کی حمایت کرے گی جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی نے مجوزہ آئینی ترامیم کی حمایت کی ہے۔

    یاد رہے کہ ‎بلوچستان سے قومی دھارے کی جماعتوں کے علاوہ جن دیگر جماعتوں کی پارلیمنٹ نمائندگی ہے ان میں بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی شامل ہیں۔

    قوم پرست جماعتوں میں سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی قومی اسمبلی میں ایک، بلوچستان نیشنل پارٹی کی سینیٹ میں دو جبکہ نیشنل پارٹی کی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ایک ایک نشست ہے۔

    حکومت نے بلوچستان سے نمائندگی رکھنے والی دیگرجماعتوں سے بھی حمایت کے لیے رابطہ کیا ہے۔

    اگر ترامیم عوام کے فائدے میں ہیں تو خفیہ کیوں رکھا جارہا ہے: بی این پی

    بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائم قام صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ نے بتایا کہ آئینی ترامیم کی حمایت کے لیے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار اور دیگر حکومتی عہدیداروں کا سردار اختر مینگل کے علاوہ ان سے رابطہ ہوا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومتی عہدیداروں سے یہ سوال کیا کہ اگر یہ ترامیم عوام کے فائدے کے لیے ہیں تو ان کو خفیہ کیوں رکھا جارہا ہے؟

    ’ہم نے انھیں بتایا کہ آئینی ترامیم کے مسودے کو تو تین ماہ پہلے منظر عام پر لانا چائیے تھا۔‘

    ‎ان کا کہنا تھا کہ جب تک آئینی ترامیم کا مسودہ نہیں ملے گا اس وقت تک پارٹی ان کی حمایت نہیں کرسکے گی۔ ‎انھوں نے بتایا کہ پارٹی کے سربراہ نے آئینی ترامیم کی حمایت کے لیے دو ہزار لاپتہ افراد کی بازیابی کی شرط بھی رکھ دی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار نے اس معاملے پر بات چیت کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے تاہم اگر حکومت اس بات کے لیے تیار ہوتی ہے تو ان دو ہزار افراد کو آئینی ترامیم کی منظوری سے پہلے بازیاب کرانا ہوگا۔

    ‎انھوں نے کہا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہوگا لیکن بلوچستان کو صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت بلوچستان کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے تو وہ قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستوں میں اضافہ کرے۔

    ’آئینی کورٹ کے قیام سے متعلق ترمیم کی نیشنل پارٹی حمایت کرے گی‘

    نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل سینیٹر جان محمد بلیدی نے بتایا کہ بعض آئینی ترامیم پر حکومت کی نیشنل پارٹی سے مشاورت ہوئی ہے اور جن آئینی ترامیم پر مشاورت ہوئی ہے نیشنل پارٹی ان کی حمایت کرے گی۔

    انھوں نے کہا کہ جن آئینی ترامیم پر مشاورت ہوئی ہے ان میں آئینی کورٹ کے قیام سے متعلق ترمیم شامل ہے جس کی نیشنل پارٹی حمایت کرے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ آئینی ترامیم میں ججوں کی تقرری کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل میں پارلیمنٹ کے اراکین بھی شامل کیے جائیں گے اور اس میں دو اراکین حزب اختلاف اور دو اراکین حکومت سے ہوں گے۔

    انھوں نے بتایا کہ مجوزہ آئینی ترامیم کے تحت فلور کراس کرنے والے رکن کو نااہل قرار دیا جائے گا۔

    جان محمد بلیدی نے بتایا کہ پہلے 90 روز تک چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر اتفاق رائے نہ ہونے پر معاملہ لٹک جاتا تھا لیکن اب 90 روز تک اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں یہ معاملہ بھی سپریم جوڈیشل کونسل میں جائے گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ فوج کے سربراہ کو ہٹانے کا اختیار پہلے وزیر اعظم کے پاس تھا لیکن مجوزہ آئینی ترمیم میں فوج کے سربراہ کو ہٹانے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس جائے گا۔

  7. آئینی ترمیم پیش کرنے میں تاخیر کی وجہ مشاورتی عمل ہے: عطا تارڑ

    وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ پارلیمان میں آئینی ترمیم پیش کرنے میں تاخیر ہوئی ہے جس کی وجہ اس سنجیدہ معاملے پر مشاورتی عمل ہے۔

    اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آئینی ترمیم پر حکومتی جماعتوں کے درمیان مشاورت کا سلسلہ جاری ہے جبکہ مولانا فضل الرحمان سمیت اپوزیشن جماعتوں سے بھی مشاورت کی جا رہی ہے۔

    وہ کہتے ہیں کہ مسودہ کی ایک، ایک شق پر حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں مشاورت جاری ہے اور قانونی ماہرین کی رائے لی جا رہی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ ’یہ پاکستان کی تاریخ کا اہم موڑ ہے کہ آئین میں ترمیم ہونے جا رہی ہے۔‘

    ’میثاق جمہوریت میں انصاف تک رسائی کو آسان بنانا شامل تھا۔ اصلاحات کے ذریعے انصاف کا نظام بہتر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پارلیمان ایک بالادست ادارہ ہے۔‘

    عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ حکومت کی کوشش ہے کہ وسیع تر مشاورت کے نتیجے میں اصلاحات تک پہنچا جائے گا۔ ’ان ترامیم کے ذریعے ہر شہری کی زندگی میں بہتری آئے گی۔‘

    وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’تاخیر ضرور ہوئی ہے تاکہ مشاورت کا دائرہ کار وسیع کیا جائے اور قانونی ماہرین کی رائے طلب کی جائے۔‘

  8. مولانا فضل الرحمان کی حکومت اور تحریک انصاف کے وفود سے ملاقاتیں

    جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اس وقت توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ آج پارلیمان میں آئینی ترمیم پیش کیے جانے سے قبل ان کی اپنی رہائش گاہ پر حکومتی اتحاد اور اپوزیشن جماعت تحریک انصاف دونوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔

    حکومت کو اس آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ اسے مولانا فضل الرحمان کی جماعت کے آٹھ ارکان کی حمایت درکار ہوگی تاکہ اسے قومی اسمبلی میں 224 ووٹ حاصل ہوسکیں۔

    جمعیت علمائے اسلام ف کے ترجمان اسلم غوری کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر جماعت نے حکومت اور تحریک انصاف کے وفود سے آئینی ترمیم پر مشاورت کی ہے۔

    اس حکومتی وفد میں ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر داخلہ محسن نقوی شامل تھے جبکہ تحریک انصاف کے وفد میں علی محمد خان، سابق سپیکر اسد قیصر، بیرسٹر گوہر، عمر ایوب اور دیگر افراد شامل تھے۔

    اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا مولانا آئینی ترمیم کے معاملے پر حکومت کے ساتھ ہیں یا اپوزیشن کے ساتھ۔

    تاہم عطا اللہ تارڑ سمیت دیگر حکومتی وزیر نمبر پورے ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

  9. سینیٹ اجلاس کا وقت ایک بار پھر تبدیل کر کے رات 10 بجے مقرر، قومی اسمبلی کا اجلاس تاحال شروع نہ ہو سکا

    پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اتوار کو ہونے والے اجلاس مسلسل تاخیر کا شکار ہیں۔ اس اہم اجلاس میں آج آئینی ترمیم پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

    سینیٹ کے اجلاس کا وقت تیسری بار تبدیل کر کے اب رات 10 بجے کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ اس سے قبل سینیٹ سیکریٹریٹ کی جانب سے دوپہر کو ہونے والے اجلاس کا وقت تبدیل کر کے شام سات بجے شیڈول کرنے کا اعلامیہ جاری کیا تھا۔

    سینیٹ کے عملے کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹی پر موجود رہیں اور دفاتر کھلے رکھیں۔

    دوسری جانب قومی اسمبلی کا تبدیل شدہ وقت کے مطابق اجلاس شام چار بجے شروع ہونا تھا جو تین گھنٹے سے زائد گزرنے کے باوجود اب تک شروع نہیں ہو سکا۔

    یاد رہے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے متعلق ابھی کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہوا کہ یہ اجلاس کب شروع ہو گا۔

    سرکاری چھٹی کے باوجود ان اہم اجلاسوں کے انعقاد پر صبح سے ہی پارلیمنٹ ہاؤس میں گہما گہمی دیکھی جا رہی ہے۔

    اس دوران محتلف سیاسی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس بھی ہوئے اور سیاستدانوں کے درمین رابطے ہوتے رہے جس میں اس مجوزہ ترمیم کے حوالے سے مشاورت کی جاتی رہی۔

    یہ بھی یاد رہے کہ اگر آئینی ترمیم پر حکومت کی تیاریاں اور مشاورت کامیابی کے ساتھ مکمل ہو جاتی ہیں تو ایوان کے اجلاس سے قبل کابینہ کے اجلاس سے اس مسودے کی منظوری بھی لی جائے گی۔

    اس سے قبل وفاقی کابینہ کا اجلاس صبح 11 بجے اور اس کے بعد سہہ پہر تین بجے منعقد کرنے کا فیصلہ سامنے آیا تھا۔

  10. قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس تاخیر کا شکار، اب تک کیا ہوا؟

    پاکستان کے پارلیمان میں آئینی ترمیم پیش کیے جانے کا امکان ہے مگر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس اتوار کو مسلسل تاخیر کا شکار ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق حکومت عدالتی اصلاحات کا ارداہ رکھتی ہے مگر اتحادیوں کے ساتھ اس کی مشاورت جاری ہے۔

    امکان ہے کہ اس ترمیم میں موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت اعلی عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز شامل ہے۔

    اتوار کے روز وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت کابینہ کے اجلاس میں آئینی ترامیم منظور کی جائیں گی جس کے بعد انھیں پارلیمان کے ایوان زیریں قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

    اس آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت کو قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔

    اس آئینی ترمیم کے حوالے سے جہاں حکومت کا نمبر گیم پورے ہونے کا دعویٰ ہے وہیں پی ٹی آئی اس ترمیم میں مکمل اعتماد میں نہ لیے جانے پر شکوہ کناں ہے۔ پالیمنٹ کی راہدایوں میں چھٹی کا روز ہونے کے باوجود سیاسی گہما گہمی عروج پر دکھائی دے رہی ہے۔

    صبح سویرے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کا وقت تبدیل

    پاکستان کی قومی اسمبلی کے اجلاس کا وقت اتوار صبح 11:30 بجے مقرر تھا تاہم آج اسے تبدیل کر کے سہ پہر 4:00 بجے کردیا گیا۔ لیکن تا دم تحریر مزید ایک گھنٹہ گزر جانے کے باوجود اجلاس تاخیر کا شکار ہے۔

    دوسری جانب سینیٹ کا اجلاس رات سات بجے ہوگا۔ قومی اسمبلی سے جاری اعلامیے کے مطابق اجلاس کے وقت کی تبدیلی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کی گئی ہے۔

    عدلیہ کے اختیارات کم کیے گئے تو بھرپور مذمت کریں گے: تحریک انصاف

    تحریک انصاف کے سربراہ بیرسٹر گوہر نے اسے ’غیر آئینی ترمیم‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ترمیم کا مسودہ تاحال کسی کے پاس نہیں۔

    بیرسٹر گوہر نے دعویٰ کیا کہ اس کمیٹی کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ قانون سازی کرے۔ ’ہم نے اس کمیٹی میں کوئی تجاویز نہیں دیں۔‘

    ’عدلیہ کے اختیارات کسی صورت کم نہیں ہونا چاہیں۔ اگر ایسی کوشش کی گئی تو ہم اس کی بھرپور مزمت کرتے ہیں۔‘

    یہ انفرادی قانون سازی نہیں،: عطا تارڑ

    ادھر وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کو مجوزہ اصلاحات کے لیے دو تہائی اکثریت کی امید ہے۔

    وزیر اطلاعات نے یہ بھی کہا کہ ’یہ کوئی انفرادی طور پر قانون سازی نہیں ہو گی بلکہ پوری قوم کے لیے اجتماعی طور پر ہو گا۔ اس سے انصاف کی سستی اور جلدی فراہمی کے حوالے سے چیزیں شامل ہیں۔‘

    آئین بنانا اور تبدیل کرنا پارلیمنٹ کا اسحقاق ہے: احسن اقبال

    وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اتوار کے روز ایک ایسی ’پریس کانفرنس‘ کی جس میں نہ کوئی سوال جواب ہوا نہ صحافی دکھائی دیے۔ البتہ اس خطاب میں احسن اقبال نے پی ڈی ایم حکومت کے ’مشکل فیصلوں‘ سے بات شروع کرتے ہوئے آخر میں عدلیہ اور آئینی اصلاحات تک پہنچا دی۔

    انھوں نے کہا کہ ’آئین بنانا اور تبدیل کرنا پارلیمنٹ کا اسحقاق ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام میں وہ اصلاحات کی جائیں جس سے ملک میں امن استحکام، اور پالیسیوں کے تسلسل میں رکاوٹ نہ آئے۔‘

    احسن اقبال کے مطابق ’ماضی میں ایسے عدالتی فیصلے آئے جس سے ملک کے استحکام میں فرق پڑا چاہے وہ ثاقب نثار کے فیصلے ہوں یا جسٹس آصف کھوسہ کے یا حالیہ دنوں کے بھی بعض فیصلے ہوں۔‘

    قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں شرکت یقینی بنائیں: پی پی پی کی اراکینِ پارلیمنٹ کو ہدایت

    پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما نئیر حسین بخاری نے اپنی جماعت کے تمام اراکینِ قومی اسمبلی اور سینیٹ کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ہونے والے اجلاسوں میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں۔

    خیال رہے گذشتہ روز ن لیگ کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا تھا کہ ان کی کوشش ہے کہ آئینی ترامیم سے متعلق عمل اتوار کو مکمل کرلیا جائے۔

  11. یہ غیر آئینی ترامیم ہو رہی ہیں، بل کی کاپی کسی کے پاس نہیں: بیرسٹر گوہر

    تحریک انصاف کے سربراہ بیرسٹر گوہر علی خان نے ممکنہ طور پر پارلیمان میں پیش کی جانے والی آئینی ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ’غیر آئینی‘ ترمیم قرار دیا ہے۔

    ایک ویڈیو پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان پارٹی کے فیصلے کے ساتھ ہیں۔

    تاہم ان کا اپنی جماعت کے دو ارکان کے ساتھ ’رابطہ نہیں ہو پا رہا۔‘ انھوں نے کہا کہ اگر ان ارکان کے ووٹ پارٹی پالیسی کے خلاف کاسٹ ہوئے تو ان ووٹوں کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

    خیال رہے کہ حکومت کو آئینی ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔

    بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ’ہم سجھتے ہیں کہ یہ غیر آئینی ترامیم ہو رہی ہیں۔ وزیر قانون نے آج بھی ہمیں مختصر ہی اس ترمیم کا بتایا ہے۔ ان کے پاس آئینی ترمیم کا بل آج بھی نہیں تھا جو وہ ہمیں دکھاتے۔‘

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب جبکہ کچھ دیر میں جبکہ اجلاس شروع ہونے والا ہے، پیپلز پارٹی کے پاس بھی بل کی کاپی موجود نہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس کمیٹی کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ قانون سازی کرے۔ ’ہم نے اس کمیٹی میں کوئی تجاویز نہیں دیں۔‘

    بیرسٹر گوہر کے مطابق پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد تو کم ہے تاہم وہ اس پراسیس کا حصہ بنیں گے اور اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں گے۔

    انھوں نے کہا کہ عدلیہ کے اختیارات کسی صورت کم نہیں ہونا چاہیں۔ ’اگر ایسی کوشش کی گئی تو ہم اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔‘

    دوسری جانب قومی اسمبلی کا اجلاس تاحال شروع نہیں ہو سکا۔

    اس سے قبل اجلاس کا وقت صبح 11 بجے سے تبدیل کر کے اس کو چار بجے کیا گیا تھا اور سینیٹ کا وقت بھی آگے بڑھایا گیا تھا۔

    واضح رہے کہ قومی اسمبلی سے قبل کابینہ کا اجلاس بھی ہونا ہے جس میں آئینی مسودے کی منظوری دی جانی ہے۔ تاہم مقررہ وقت گزر جانے کے باوجود اس وقت تک اجلاس شروع نہ ہو سکا ہے۔

  12. ’یہ تاثرغلط ہے کہ کسی خاص شخصیت کے لیے آئینی ترمیم کی جا رہی ہیں‘

    وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ یہ تاثرغلط ہے کہ کسی خاص شخصیت کے لیے آئینی ترمیم کی جا رہی ہیں بلکہ مجوزہ قانون سازی ’وسیع تر عوامی مفاد میں کی جا رہی ہے۔‘

    ایک ویڈیو پیغام میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ آئینی ترمیم کے حوالے سے ’ہم پر امید اور پر عزم ہیں۔ نمبر گیم میں حکومت کو مسئلہ نہیں ہوگا۔‘

    انھوں نے کہا کہ مجوزہ قانون سازی کا اجتماعی طور پر فائدہ ہو گا۔ ’آئینی ترمیم کا مقصد تیز اور سستے انصاف کی فراہمی ہے۔‘

    اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کی راہداریوں میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ ’مسئلہ پاکستان کے عوام کا ہے کہ ان کو جلدی انصاف فراہم کرنے کے لیے اصلاحات لائیں۔‘

    انھوں نے کہا کہ ’یہ قومی نوعیت کے وہ معاملات ہیں جن سے پاکستان کے عوام کو جلد از جلد فائدہ ملنا چاہیے۔‘

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’مولانا فصل الرحمان ہمارے پرانے ساتھی ہیں،کچھ دیر میں کابینہ کا اجلاس شروع ہو جائے گا۔ انتظار کریں ہم آپ کو اچھی خبردیں گے۔‘

    وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’کئی بار آرڈرز بغیر کاز لسٹ کے بھی جاری ہو جاتے ہیں، نوٹسز جاری نہیں ہوتے، توازن برقرار رکھنے کے لیے سسٹم ہونا چاہیے۔‘

    ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو اور اسحاق ڈار کے درمیان میثاق جمہوریت پر بات ہوئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان ہمارے پرانے اتحادی ہیں۔

  13. پاکستان کے آئین میں مجوزہ ترامیم ’آئینی پیکج‘ میں کیا ہے اور اس پر مخالفت کیوں؟, شہزاد ملک، بی بی سی اردو ، اسلام آباد

    اتوار کے روز وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت کابینہ کے اجلاس میں آئینی ترامیم منظور کیے جانے کا امکان ہے جس کے بعد انھیں پارلیمان کے ایوان زیریں قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔

    اس آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت کو قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔

    یاد رہے کہ کئی روز سے ملک میں یہ چہ مگوئیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ حکومت عدالتی اصلاحات کا ارداہ رکھتی ہے۔ ان میں ملک کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت اعلی عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز شامل ہے۔

    اس کے ساتھ ساتھ اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن اور ججز کی تعیناتی سے متعلق پارلیمانی کمیشن کی ازسرنو تشکیل بھی زیر غور ہے۔

    سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے ان ممکنہ اصلاحات کی بھرپور مخالفت کی ہے۔

  14. ملک میں امن و استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل کے لیے عدالتی نظام میں اصلاحات ضروری ہیں: احسن اقبال

    وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ آئین بنانا اور تبدیل کرنا پارلیمنٹ کا اسحقاق ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام میں وہ اصلاحات کی جائیں جس سے ملک میں امن استحکام، اور پالیسیوں کے تسلسل میں رخنہ نہ پڑے۔

    وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ماضی میں ایسے عدالتی فیصلے آئے جس سے ملک کے استحکام میں فرق پڑا چاہے وہ ثاقب نثار کے فیصلے ہوں یا جسٹس آصف کھوسہ کے یا حالیہ دنوں کے بھی بعض فیصلے ہوں۔

    یاد رہے کہ پاکستان کے پارلیمان میں ’آئینی پیکج‘ پیش کیے جانے کا امکان ہے تاہم کئی روز سے ملک میں یہ چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں کہ حکومت عدالتی اصلاحات کا ارداہ رکھتی ہے۔

    ان میں ملک کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت اعلی عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز شامل ہے۔

    احسن اقبال نے پریس کانفرنس کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’جب پنجاب میں 50 ہزار بلدیاتی نمائندوں کو ان کے عہدے سے ہٹا کر ان کا معاشی قتل کیا اورسپریم کورٹ نے ان کو بحال کیا تو سات مہینے تک عمران خان اور عثمان بزدار نے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا۔‘

    احسن اقبال نے الزام عائد کیا کہ ’کسی عدالت نے ان سے نہں پوچھا کہ ان کے دیے فیصلے پرعمل کیوں نہیں ہو رہا۔ اُس دور میں حکومت کو ہر طرح کی آزادی تھی۔ عمران خان کی حکومت بچانے کے لیے سپریم کورٹ نے آیین کو بھی تبدیل کر دیا۔‘

    احسن اقبال نے دعویٰ کیا کہ ’عدلیہ کا ہم احترام کرتے ہیں وہ کسی بھی معاشرے کی ریرھ کی ہڈی ہوتی ہے جس سے معاشرے میں استحکام برقرار رہتا ہے۔ آئین بنانا اور تبدیل کرنا پارلیمنٹ کا اسحقاق ہے لیکن عمران خان کی جماعت نے ملک میں انتشار پیدا کیا۔‘

    اس سے قبل احسن اقبال نے بتایا کہ ’ پی ڈی ایم حکومت نے مشکل فیصلے کر کے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔ دوست ممالک نے ایس آئی ایف سی کے ذریعے پانچ سال میں 27 ارب ارب روپے کے سرمایہ کاری کی یقین دہانی کروائی ہے۔

    ’ہمارا فرض ہے کہ ہم امن و امان استحکام پالیسیز کے تسلسل اور مستقل اصلاحات کے ذریعے ان مواقعوں سے فائدہ اٹھائیں۔‘

    سیاست اور ریاست میں فرق ہوتا ہے: احسن اقبال

    احسن اقبال نے پی ٹی آئی پر ’ملک دشمن‘ جماعت ہونے کا الزام بھی عائد کیا۔

    ’تحریک انصاف نے عوام میں جھوٹ اور نفرت کو پھیلایا اور اب وہ ایک اینٹی سٹیٹ جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی نے ہر ممکن کوشش کی کہ پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام سے محروم رہ جائے۔‘

    احسن اقبال نے کہا کہ ’جب کوئی جماعت اپنی سیاست کو ریاست سے اوپرکر دے تو وہ ملک دشمن جماعت بن جاتی ہے۔‘

  15. قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کا وقت تبدیل، آئینی ترمیم کا بِل پیش کیے جانے کا امکان

    پاکستان کی قومی اسمبلی کے اجلاس کا وقت اتوار صبح 11:30 بجے سے تبدیل کر کے سہ پہر 4:00 بجے کر دیا گیا ہے جبکہ سینیٹ کا اجلاس رات 7 بجے ہوگا۔

    قومی اسمبلی سے جاری اعلامیے کے مطابق اجلاس کے وقت کی تبدیلی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کی گئی ہے۔

    اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ کمیٹی نے اتوار کی صبح 10 بجے ہونے والی اپنی ایک میٹنگ کے بعد سپیکر سے درخواست کی کہ کمیٹی کو چند اہم امور پر فیصلوں کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

    خیال رہے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم پیش کیے جانے کا کا امکان ہے۔

    قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں شرکت یقینی بنائیں: پی پی پی کی اراکینِ پارلیمنٹ کو ہدایت

    پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما نئیر حسین بخاری نے اپنی جماعت کے تمام اراکینِ قومی اسمبلی اور سینیٹ کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ہونے والے اجلاسوں میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں۔

    حکومتی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن اور اس کی جماعتوں کو دونوں سے ایوانوں سے آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوگی۔

    پی پی پی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ نیئر حسین بخاری کی جانب سے بھیجے گئے مراسلے میں اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ کو کہا گیا ہے کہ ’وہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں پارٹی قیادت کی ہدایت کے مطابق قانون سازی یا بِل پر ووٹ دیں۔‘

    پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کے حق میں پی ٹی آئی ممبران ووٹ نہ دیں: بیرسٹر گوہر علی خان

    دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنے اراکین کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ نہ دیں۔

    اتوار کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ ’دو ستمبر کو ہماری پارلیمانی پارٹی کی جو میٹنگ ہوئی تھی اس میں ہم نے تمام اراکین اسمبلی اور اراکین سینیٹ کو ہدایات جاری کر دیں تھیں۔‘

    خیال رہے گذشتہ روز ن لیگ کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا تھا کہ ان کی کوشش ہے کہ آئینی ترامیم سے متعلق عمل اتوار کو مکمل کرلیا جائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ’کل صبح (اتوار کو) کابینہ کا اجلاس ہے، جس کے بعد کل ہی قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئینی ترامیم کو پیش کیا جائے گا۔ اگر وہاں سے ان ترامیم کو پاس کر دیا جاتا ہے تو کل شام میں ہی سینیٹ اجلاس میں ان ترامیم کو پیش کر دیا جائے۔‘

    عرفان صدیقی نے یہ بھی کہا تھا کہ ان ترامیم کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ان کے نمبر پورے ہیں۔ ’ہم دونوں ایوان میں مطلوبہ نمبر حاصل کر لیں گے۔‘

  16. حکومتی اور اتحادی جماعتوں کے وفود کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتیں: آئینی ترمیم پر ’پی ٹی آئی کو بھی اعتماد میں لیں‘

    پاکستان کی پارلیمنٹ میں عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم آج پیش کیے جانے کا امکان ہے اور ایسے میں پاکستان مسلم لیگ ن اور ان کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی کوشش ہے کہ ترمیم کی منظوری کے لیے مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت علما اسلام (جے یو آئی ف) کی حمایت حاصل کی جائے۔

    خیال رہے کسی بھی آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ سے منظور کروانے کے لیے حکومت کو دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔

    قومی اسمبلی سے اس ترمیم کو منظور کروانے کے لیے حکومت کم از کم 224 اور سینیٹ میں کم از کم 64 اراکین کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔

    مولانا فضل الرحمان کی جماعت کی قومی اسمبلی میں آٹھ جبکہ سینیٹ میں پانچ نشستیں ہیں۔

    ن لیگ اور پی پی پی کے رہنماؤں نے سنیچر کی شب مولانا فضل الرحمان سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں ہیں۔

    اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے لیے آنے والے پی پی پی کے وفد کی سربراہی جماعت کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کر رہے تھے۔

    اس سے چند ہی گھنٹوں پہلے وفاقی وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی تھی۔ دوسری جانب سنیچر کی ہی شام کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وفد نے بھی چیئرمین بیرسٹر گوہر کی سربراہی میں جے یو آئی ف کے رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔

    تاہم جے یو آئی ف نے آئینی ترمیم کی حمایت کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے تاحال کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔

    جے یو آئی ف کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے حکومتی اور پی پی پی کے وفود سے ملاقاتوں کے حوالے سے صحافیوں کو بتایا کہ ’ان کی تجاویز آئی ہیں، اب آرام کے ساتھ مولانا فضل الرحمان بھی سوچیں گے، پارٹی بھی سوچے گی اور پارٹی کے جو باقی ساتھی ہیں ان سے بھی مشاورت کریں گے۔‘

    کامران مرتضیٰ کا مزید کہنا تھا کہ اگر آئینی ترمیم کے حوالے سے قومی اتفاق رائے قائم کرنا ہے تو ’پی ٹی آئی کو بھی اعتماد میں لیں، دوسرے ساتھیوں کو بھی لیں۔ ہمیں ٹائم دیں، ہمیں سوچنے اور سمجھنے دیں تب بات ہوگی۔‘

    اتوار کو قومی اسمبلی کا اجلاس 11:30 بجے ہونا تھا، تاہم بعد میں اس کا وقت تبدیل کر کے سہ پہر 4:00 بجے کردیا گیا۔

    خیال رہے گذشتہ روز ن لیگ کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا تھا کہ ان کی کوشش ہے کہ آئینی ترامیم سے متعلق عمل اتوار کو مکمل کرلیا جائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ’کل صبح کابینہ کا اجلاس ہے، جس کے بعد کل ہی قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئینی ترامیم کو پیش کیا جائے گا۔ اگر وہاں سے ان ترامیم کو پاس کر دیا جاتا ہے تو کل شام میں ہی سینیٹ اجلاس میں ان ترامیم کو پیش کر دیا جائے۔‘

    انھوں نے مزید کہا کہ ’کوشش ہے کہ کل ہی اس سارے عمل کو مکمل کر لیا جائے۔‘

    عرفان صدیقی نے یہ بھی کہا کہ ان ترامیم کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ان کے نمبر پورے ہیں۔ ’ہم دونوں ایوان میں مطلوبہ نمبر حاصل کر لیں گے۔‘

  17. بریکنگ, آئینی ترامیم سے متعلق سارا عمل اتوار کے روز ہی مکمل کرنے کی کوشش ہے: عرفان صدیقی

    پاکستان مسلم لیگ نون کے سینیئر رہنما عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ کوشش ہے کہ آئینی ترامیم سے متعلق عمل کل (اتوار) مکمل کر لیا جائے۔

    جیو نیوز کے پروگرام ’نیا پاکستان‘ میں بات کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ ’کل صبح کابینہ کا اجلاس ہے، جس کے بعد کل ہی قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئینی ترامیم کو پیش کیا جائے گا۔ اگر وہاں سے ان ترامیم کو پاس کر دیا جاتا ہے تو کل شام میں ہی سینیٹ اجلاس میں ان ترامیم کو پیش کر دیا جائے۔‘

    انھوں نے کہا کہ ’کوشش ہے کہ کل ہی اس سارے عمل کو مکمل کر لیا جائے۔‘

    عرفان صدیقی نے یہ بھی کہا کہ ان ترامیم کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ان کے نمبر پورے ہیں۔ ’ہم دونوں ایوان میں مطلوبہ نمبر حاصل کر لیں گے۔‘

    لیکن یہ ترامیم کیا ہیں؟ اس بارے میں عرفان صدیقی نے کہا کہ ’ان ترامیم کا ماخذ چارٹر آف ڈیموکریسی ہے، جس میں ہم نے عدالتی اصلاحات کی بات کی تھی تاکہ عام آدمی کو انصاف مل سکے۔ ہم نے ایسے نظام احتساب کی بات کی تھی جو احتساب تو کرے لیکن کسی کو نشانہ نہ بنایا۔‘

    پروگرام کے اینکر شہزاد اقبال کے اس سوال کے جواب میں کہ ’کیا آپ ان ترامیم کے ذریعے موجودہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں یا سنیارٹی کے اصول کو تبدیل کر کے کسی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں‘ عرفان صدیقی نے کہا کہ ’کل یہ ترامیم سامنے آ جائیں گی۔ جو بھی ہو گا کسی کی صوابدید نہیں ہو گی، ایک میکانزم اور سسٹم ہو گا اور اس سسٹم کے تحت ہی چیف جسٹس کا انتخاب ہو گا۔‘

    عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ ان ترامیم کا اطلاق کسی موجودہ جج یا آنے والے جج کے لیے نہیں ہو گا۔

  18. عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم پر ہم چپ نہیں بیٹھیں گے: عمران خان, شہزاد ملک، بی بی سی اردوڈاٹ کام، اسلام آباد

    سابق وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ’نئی آئینی ترمیم کے ذریعے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی توسیع کے لیے سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے۔ جس طرح سے ترمیم لائی جا رہی ہے تو جان لیں ہم چپ کر کے نہیں بیٹھیں گے۔‘

    اڈیالہ جیل میں 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کی سماعت کے موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’سپیکر کی مرضی کے بغیر پارلیمنٹ سے لوگوں کو کیسے اٹھایا جا سکتا تھا، آج جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے، کل ان کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔‘

    صحافی رضوان قاضی کے مطابق عمران خان سے سوال کیا گیا کہ آپ کے دور میں بھی پارلیمنٹ لاجز میں پولیس داخل ہوئی تھی؟

    اس پر عمران خان نے کہا کہ ’پارلیمنٹ لاجز کا مجھے معلوم نہیں لیکن پارلیمنٹ سے آج تک کسی کو نہیں اٹھایا گیا۔‘

    سابق وزیراعظم نے الزام عائد کیا کہ شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کیس میں سزا ہونے والی تھی اور سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے انھیں بچایا۔ شہباز شریف پر منی لانڈرنگ کا ثابت شدہ کیس تھا، منی لانڈرنگ کے کیس کے علاوہ شہباز شریف، نواز شریف اور اسحٰق ڈار پر تمام کیسز پرانے تھے۔‘

    صحافی نے سوال کیا کہ رانا ثنا اللہ پر منشیات کا کیس آپ کے دور میں بنایا گیا جس پر بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ رانا ثنا اللہ پر اے این ایف نے کیس بنایا جس کے سربراہ میجر جنرل ہیں۔

    ’میں نے اے این ایف کے سربراہ کو بلایا، انھوں نے کابینہ کو بریفنگ دی اور رانا ثنا اللہ کے کیس سے متعلق ثبوت پیش کیے۔‘

    بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ پارٹی کو ’سٹریٹ موومنٹ‘ کے لیے تیار کر رہے ہیں، کچھ بھی ہو جائے 21 ستمبر کو لاہور میں جلسہ کریں گے چاہے اجازت ملے یا نہ ملے۔ اسلام آباد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں مگر اس کے باوجود لوگ نکلے۔‘

  19. 12 جولائی کے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں، تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے نتائج ہوں گے: سپریم کورٹ, شہزاد ملک، بی بی سی اردو - اسلام آباد

    سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینج نے مخصوص نشستوں کے کیس میں الیکشن کمیشن اور پاکستان تحریک انصاف کی درخواستوں پر وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ 12 جولائی کے فیصلے کی روشنی میں پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے امیدوار آزاد نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ہیں۔

    وضاحتی بیان کے متن کے مطابق ’سپریم کورٹ کا شارٹ آرڈر بہت واضح ہے اور الیکشن کمیشن نے اس حکم کو غیر ضروری طور پر پیچیدہ بنایا ہے۔‘

    مخصوص نشستوں کے کیس میں الیکشن کمیشن کی دائر کی گئی درخواست کے بعد سپریم کورٹ کے 12 جولائی کو اکثریتی فیصلہ دینے والے آٹھ ججز کے بینچ نے وضاحتی بیان جاری کیا گیا ہے جو چار صفحات پر مشتمل ہے۔

    وضاحتی بیان کے مطابق حاصل کردہ نشست فوراً اس سیاسی جماعت کی حاصل کردہ نشست تصورکی جائے گی، کوئی بعد کا عمل یا ایکٹ اس وقت کی متعلقہ تاریخوں پرہونے والے معاہدے تبدیل نہیں کرسکتا۔

    سپریم کورٹ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’آرڈر میں واضح کر دیا تھا کہ سرٹفکیٹ جمع کرانے اور پارٹی تصدیق پر ارکان پی ٹی آئی کے تصور ہوں گے۔ بعد میں آنا والا کوئی ایکٹ ان کی حیثیت ختم نہیں کر سکتا۔‘

    ’ان ارکان کا معاملہ ’پاسٹ اینڈ کلوز‘ ٹرانزیکشن تصور ہو گا۔ یہ تمام ارکان آئینی و قانونی تقاضوں کے لیے پی ٹی آئی ارکان ہی تصور ہوں گے۔

    بیان کے مطابق طے شدہ حیثیت کے مطابق یہ کامیاب امیدوارپی ٹی آئی کے امیدوار تھے۔ الیکشن کمیشن کی وضاحتی درخواست عدالتی فیصلے پر عمل در آمد کے راستے میں رکاوٹ ہے۔

    یاد رہے کہ رواں سال 12 جولائی کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سربراہی میں 13 رکنی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل اکثریت رائے سے منظور کر لی تھی۔

    سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی اپیل کو آٹھ ججز نے منظور کیا جبکہ پانچ ججز نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

    سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے منتخب امیدواروں کو کسی اور جماعت کا رکن قرار نہیں دیا جا سکتا اور پی ٹی آئی ہی مخصوص نشستوں کے حصول کی حقدار ہے۔

    اس فیصلے کے بعد تحریک انصاف سیاسی جماعت بن کر حزب اختلاف کی جماعت بن گئی تھی۔

    یہ بھی یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے میں ’ابہام ‘دور کرنے کے لیے ایک درخواست جمع کروائی تھی جس کے بعد سپریم کورٹ کے آٹھ ججز نے وضاحت جاری کی ہے اور الیکشن کمیشن کی درخواست نمٹا دی گئی ہے۔

    بیان میں ججز نے وضاحت کی کہ واضح معاملہ پیچیدہ بنانے اور ابہام پیدا کرنے کی کوشش مسترد کی جاتی ہے۔

    وضاحتی بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، الیکشن کمیشن کا تحریک انصاف ارکان کے سرٹیفکیٹ تسلیم نہ کرنا غلط ہے، الیکشن کمشین کو اس اقدام کے آئینی، قانونی نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

    ’سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے تمام ارکان تحریک انصاف کے تصور ہوں گے اور فیصلے کا اطلاق قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر بھی ہوگا۔‘

    سپریم کورٹ کے وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے خود بیرسٹر گوہر کو پارٹی چیئرمین تسلیم کیا ہے۔ الیکشن کمیشن وضاحت کے نام پر اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کر سکتا۔ فیصلے کی روشنی میں پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار ہیں۔

    عدالت عظمیٰ کے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت اکثریتی بینچ کے فیصلے میں شامل ہیں۔

  20. ہرنائی کی کوئلہ کان میں پانچ مزدور ہلاک, محمد کاظم/بی بی سی اردو، کوئٹہ

    بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں سینیچر کو ایک کوئلہ کان میں حادثے کے باعث پانچ مزدور ہلاک ہوگئے ہیں۔

    اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے چیف انسپیکٹرز مائنز بلوچستان غنی بلوچ نے بتایا کہ واقعہ ضلع کے علاقے شاہرگ میں پیش آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں ایک نجی کوئلہ کان میں کام کے دوران چھ کانکن پھنس گئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ان کانکنوں کو نکالنے کے لیے ریسکیو کا کام شروع کیا گیا جس کے دوران ایک کانکن کو زندہ حالت میں نکالا گیا جبکہ باقی پانچ کانکن ہلاک ہوگئے تھے۔ ہلاک ہونے والے پانچوں کانکنوں کی لاشوں کو بھی نکال دیا گیا۔ ان تمام کانکنوں کا تعلق افغانستان سے تھا۔

    چیف انسپیکٹر مائنز کا کہنا تھا کہ کان کو سیل کرکے تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی بنادی گئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ حادثہ کان میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے پیش آیا۔

    ضلع ہرنائی کوئٹہ سے متصل ہے اور یہ کوئٹہ شہر کے شمال میں واقع ہے جہاں کوئلہ کی کانیں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ہرنائی کے علاوہ بلوچستان کے جن دیگر علاقوں میں بڑی تعداد میں کوئلہ کی کانیں ہیں ان میں کوئٹہ، کچھی اور دکی کے اضلاع شامل ہیں۔

    ان کانوں میں ہزاروں کانکن کام کرتے ہیں لیکن مزدور تنظیموں کے مطابق ان میں سیفٹی کے جدید اور مناسب انتطامات نہ ہونے کہ وجہ سے ہرسال بڑی تعداد میں حادثات پیش آتے ہیں۔

    ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ان واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2023 میں بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں پیش آنے والے حادثات میں کم از کم 36 کانکن ہلاک جبکہ 40 زخمی ہوگئے۔

    تاہم مزدور تنظیموں کا کہنا ہے کہ 2023 میں بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں ہلاک ہونے والے کانکنوں کی تعداد اس سے زیادہ تھی۔