BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
آر ایس ایس کیا ہے
آر ایس ایس کیا ہے
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
وقتِ اشاعت: Monday, 15 May, 2006, 14:01 GMT 19:01 PST
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
سیکس سکینڈل: والدین پریشان
 

 
 
مظاہرہ
سکولوں والے والدین کی گول میز کانفرنس بلوانے پر غور کر رہے ہیں
ہندوستان کے زير انتظام کشمیر میں جسم فروشی کے حالیہ سکینڈل نے طالبات کے والدین کو فکر میں مبتلا کر دیا ہے۔ سکولوں اور کالجوں میں انتظامیہ کی خاطرخواہ احتیاتی تدابیر کے باوجود والدین کو ڈر ہے کہ کہیں ان کی نوعمر بچیوں کا بھی استحصال نہ ہو جائے۔

اس سلسلے میں پرائیویٹ سکولوں کی انجمن نے سرینگر میں ایک اعلٰی سطحی ’پیرنٹس کانفرنس‘ منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کشمیر پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن کے نائب صدر الطاف گوہر نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی تنظیم تمام پرائیوٹ سکولوں میں زیر تعلیم نوعمر طالبات کے والدین کی ایک ’گول میز‘ کانفرنس منعقد کرنے کا ارادہ کر رہی ہے۔

الطاف گوہر نے کہا کہ ’گزشتہ دنوں ایک معتبر سکول کی طالبہ کے بارے میں افواہ اڑی کہ اس کا فحش ویڈیو کلپ مختلف مقامات پر دیکھا گیا ہے‘۔ والدین بہت فکرمند ہیں لیکن وہ اپنی بچیوں کے لیئے مکمل طور پر سکول کو ہی ذمےدار سمجھتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ کانفرنس میں بہت ساری باتوں کی وضاحت ہو گی تو ان حالات سے نمٹنے میں مدد ملے گي۔

گزشتہ دنوں بعض مشنری سکولوں نے اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے والدین سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے بچوں کی حرکات پر خود بھی نظر رکھیں۔ ان اشتہارات میں لڑکیوں کو سکول کے اوقات کے دوران موبائل فون استعمال کرنے سے گریز کرنے کو کہا گيا ہے۔

طالبات کیا کہتی ہیں؟
 یہاں کوئی سخت مورل کوڈ نافذ کیا گیا تو میں بنگلور بھاگ جاؤں گی
 
سرسید میموریل کی طلبہ بسماء

مشنری سکول پرزنٹیشن کانونٹ میں زیر تعلیم حمیرہ کے والد عبد الحمید کا خیال ہے کہ نو عمر بچوں کے کردار کا دارومدار سکول کے مجموعی ماحول پر ہوتا ہے۔ عبد الحمید کانفرنس ميں شرکت کرنے کے خواہاں ہیں اور سکول انتظامیہ کو تجاویز بھی دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ آخر ہم بچوں کے ساتھ ہر پل سائے کی طرح تو نہيں رہ سکتے‘۔

بچے کیا کہتے ہیں؟
سر سید میموریئل سکول میں بارہویں جماعت کی طالبہ بسماء اپنے موبائل کو اپنے جسم کا حصہ کہتی ہیں۔ بسماء کا کہنا ہے کہ جب صحیح اور غلط کو ٹھیک ٹھیک واضح کیا جائے تو ہم لوگ غلطی کیسے کریں گے۔ بسماء نے یہ بھی کہا کہ اگر کشمیر میں کوئی سخت اخلاقی ضابطہ نافذ ہوا تو وہ بنگلور بھاگ جائیں گی‘۔

بچے کیا کہتے ہیں؟
 جسنی سکینڈل تو مجوعی کرائم کا حصہ ہے، ہم ایک بااخلاق سوسائٹی ہیں، قصوروار کو سزا ملے تو سب کچھ نارمل ہو جائے گا
 
مولانہ آزاد کالج کی طلبہ مصباح

مولانا آزاد روڈ پر واقع کانونٹ کالج فار ویمن میں کمپیوٹر ایپلیکیشن طالبہ مصباح بھٹ کے خیالات مختلف ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ’ہم ایک بااخلاق سوسائٹی ہیں۔ اس میں قصورواروں کو سزا ملے گی تب سب کچھ معمول پر آجائے گا‘۔

علامت نہیں بیماری ہٹاؤ
سماجی امور کے ماہر اور کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ سوشیالوجی کے سربراہ ڈاکٹر بشیر احمد کہتے ہیں کہ عوام میں اس تنازعہ کے حوالے سے کافی ’کنفیوژن‘ ہے۔ ڈاکٹر بشیر کا خیال ہے کہ لڑکیوں کے اوقات کار اور دوسری سرگرمیوں پر جاسوسی کرنے سے علامت کا تدارک ہو سکتا ہے لیکن اصل بیماری پھر بھی رہے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ کشمیری معاشرے‘ نے عورتوں کو معاشرے میں مردوں کے ساتھ کام کرنے کی اجازت بہت پہلے دے دی ہے۔ یہاں کئی سکولوں میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں اقدار کی بہت زيادہ اہمیت ہے۔ معاشرے کے کچھ حلقے کتنے ہی گمراہ کیوں نہ ہوں بچوں کو گھر اور سکول میں بہتر طریقے سے اقدار کی تعلیم دی جائے تو وہ موبائل اور ٹیلی وژن کے مثبت استعمال پر آمادہ ہو جائيں گے‘۔

 
 
دلی ڈائری
انگریزی داں آٹو ڈرائیور، جسم فروشی قانونی
 
 
جنسی سکینڈل
سرینگر: ریستورانوں میں نوجوان جوڑے نہیں آرہے
 
 
’فلم نہ دیکھیں‘
دی ڈاونچی کوڈ کے خلاف انڈیا میں مظاہرے
 
 
اسی بارے میں
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد