’عالمی طاقتیں شام میں شہریوں کو بچانے میں ناکام رہیں‘

امدادی اداروں کی ایک مشترکہ رپورٹ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر تنقید کی گئی ہے

،تصویر کا ذریعہ.

،تصویر کا کیپشنامدادی اداروں کی ایک مشترکہ رپورٹ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر تنقید کی گئی ہے

اقوام متحدہ اور امدادی اداروں کے عالمی اشتراک نے شام کے تنازعے کے شکار افراد کو بچانے میں ناکامی کا الزام بین الاقوامی طاقتوں پر عائد کیا ہے۔

افوام متحدہ کے سربراہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجرک نے بی بی سی کو بتایا کہ طاقتور ملکوں نے جنگ کے خاتمے کے بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دی ہے۔

ان کا یہ بیان امدادی اداروں کی ایک مشترکہ رپورٹ کے جواب میں آیا ہے جس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر تنقید کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق عام شہریوں نے اس تنازعے کے آغاز سے اب تک ’بدترین سال‘ گزارا ہے۔

سٹیفن ڈوجرک نے بی بی سی کو بتایا کہ اقوام متحدہ اب بھی اس تنازعے کا سیاسی حل چاہتی ہے اور بین الاقوامی برادری کو متحد ہونے کا پیغام دیتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر بشارالاسد کے کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی میں اہم کامیابی حاصل ہوئی ہے اور کچھ امدادی سرگرمیاں کی گئیں، تاہم مختلف گروہوں کو ہتھیاروں کی فراہمی سے حالات بدترین ہوتے رہے۔

ترجمان کا کہنا تھا: ’لڑائی کے خاتمے کے لیے متحد ہو کر آگے بڑھنے میں سیاسی عزم کا فقدان پایا جاتا ہے۔‘

’سیو دی چلڈرن‘ اور ‘اوکسفیم‘ سمیت دیگر امدادی اداروں کی ‘دی فیلنگ سیریا‘ نامی رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ سلامتی کونسل کے 15 ممبران نے امداد کی رسائی بڑھانے اور تکالیف کے خاتمے کے وعدے پورے نہیں کیے۔

’اقوام متحدہ اب بھی اس تنازعے کا سیاسی حل چاہتی ہے‘

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن’اقوام متحدہ اب بھی اس تنازعے کا سیاسی حل چاہتی ہے‘

رپورٹ میں شامل ایک اور امدادی ادارے ناویجیئن رفیوجی کونسل کے جنرل سیکریٹری جان ایگلنڈ کا کہنا ہے: ’یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سلامتی کونسل اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’تنازعے کے فریقین نے سلامتی کونسل کے مطالبات کو نظر انداز کیا، عام شہریوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا اور ان تک امداد کی رسائی میں بہتری نہیں لائی گئی۔‘

گذشتہ برس سلامتی کونسل نے تین قراردادیں منظور کی تھیں جن میں دیگر نکات کے علاوہ عام شہریوں پر حملے پر بند کرنے، امداد بڑھانے اور دمشق کی اجازت کے بغیر اقوام متحدہ کو شام میں کام کرنے کی اجازت دینے کے مطالبات کیے گئے تھے۔‘

بدھ کو ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ شام میں بڑے پیمانے پر طبی امداد میں اشد ضرورت ہے۔ اپنی ایک رپورٹ میں ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے کہا کہ شام کے دوسرے بڑے شہر حلب میں تنازعے کے آغاز سے قبل ڈھائی ہزار ڈاکٹرز تھے اور اب ان کی تعداد سو سے بھی کم ہے۔

ان میں سے بیشتر شہر چھوڑ کر جاچکے ہیں یا پھر اغوا یا قتل ہوچکے ہیں۔

شام میں کشیدگی کا آغاز سنہ 2011 میں صدر بشار الاسد کے خلاف ملک گیر مظاہروں سے ہوا تھا۔ انھیں دبانے کے لیے سرکاری سکیورٹی فورسز نے طاقت کا استعمال کیا، جس کے جواب میں حزب اختلاف نے ہتھیار اٹھا لیے۔