طارق رحمان کی واپسی اور مودی حکومت کی مشکل: شیخ حسینہ کے بغیر بنگلہ دیش میں انڈیا کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, شکیل اختر
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی
ڈھاکا میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ایگزیکٹو چیئرمین طارق رحمان نے کہا کہ ’اگر خدا نے چاہا تو ہم سب مل کر محنت کریں گے اور اپنی اُمیدوں کا بنگلہ دیش تعمیر کریں گے۔ آنے والے دنوں میں جو بھی ملک کی قیادت کے لیے آگے آئے گا، ہم سب اُس کی قیادت میں ترقی کے لیے کام کریں گے اور نئے رہنما کے دکھائے گئے راستے پر چلیں گے۔‘
طارق رحمان گذشتہ روز (25 دسمبر) 17 سالہ خودساختہ جلاوطنی ختم کر کے ڈھاکا واپس آئے ہیں اور اس موقع پر اُن کی پارٹی کے ہزاروں کارکنوں نے اُن کا پُرتپاک استقبال کیا۔
طارق نے مزید کہا کہ ’میرے پاس عوام اور ملک کے لیے ایک منصوبہ ہے، ملک کی ترقی کے لیے اور عوام کی تقدیر بدلنے کے لیے۔‘ تاہم انھوں نے اس منصوبے کی مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں آئندہ عام انتخابات 12 فروری کو منعقد ہوں گے اور انتخابات سے قبل طارق رحمان کی ملک واپسی کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
اپنے خطاب کے اختتام پر انھوں نے عوام سے پُرتشدد کارروائیاں روکنے کی اپیل کی اور کہا کہ ’ملک میں امن قائم رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔‘
اُن کی بنگلہ دیش واپسی کو انڈیا میں بھی کافی قریب سے دیکھا جا رہا ہے اور تبصرے کیے جا رہے ہیں۔
بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے انڈیا اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں تاریخی گراوٹ دیکھنے میں آ رہی ہے۔ مبصرین کے مطابق بنگلہ دیش کے معاملے پر انڈیا اس وقت ایک کشمکش سے گزر رہا ہے اور شیخ حسینہ کے پندرہ برس کے اقتدار کے بعد اب ڈھاکہ میں انڈیا کو اپنا کوئی دوست نظر نہیں آ رہا ہے۔
گذشتہ کچھ عرصے میں پیش آئے واقعات کے تناظر میں انڈیا محمد یونس کی عبوری حکومت سے بھی خوش نہیں ہے جبکہ انڈیا میں عمومی طور پر خالدہ ضیا اور طلبہ کی جماعت ’این سی پی‘ کو انڈیا مخالف تصور کیا جاتا ہے جبکہ ملک کی پرانی مذہبی پارٹی جماعتِ اسلامی، انڈین اسٹیبلشمنٹ کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی

،تصویر کا ذریعہGetty Images
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
انڈین تجزیہ کار اور میڈیا بنگلہ دیش کی سیاسی جماعتوں کو ’جہادسٹ‘ اور ’اسلامسٹ‘ یعنی مذہبی انتہاپسند اور ہندو مخالف قرار دیتے ہیں اور بظاہر اُن کے نزدیک صرف شیخ حسینہ کی عوامی لیگ ہی ایک واحد سیکولر اور انڈیا فرینڈلی جماعت ہے۔
لیکن عوامی لیگ پر فروری کے ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہے جبکہ بنگلہ دیش کی عدالت نے شیخ حسینہ کو موت کی سزا سنا رکھی ہے۔ انھوں نے انڈیا میں پناہ لے رکھی ہے اور بنگلہ دیش کی جماعتیں انھیں ڈھاکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اب انڈیا کے پاس کیا آپشنز ہیں؟
بین الاقوامی اُمور کی تجزیہ کار نیا نیما باسو کہتی ہیں کہ ’انڈیا اب یہی چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش میں انتخابات صاف و شفاف طریقے سے منعقد ہوں اور اس کے نتیجے میں وہاں امن و امان کی صورتحال کچھ اس طریقے سے ترتیب پائے کہ اس کا اثر کم از کم انڈیا پر نہ پڑے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اِس وقت بنگلہ دیش میں ایک انڈیا مخالف لہر چل رہی ہے جس کے لیے انڈیا بھی بہت حد تک ذمہ دار ہے۔ بنگلہ دیش کی جو نئی نسل سامنے آئی ہے وہ بہت زیادہ انڈیا مخالف نظر آتی ہے۔‘
نیا نیما باسو کہتی ہیں کہ ’بنگلہ دیش میں عوامی سطح پر انڈیا کے بارے میں بہت سے باتیں کی جا رہی ہیں، اسی طرح انڈیا میں بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ نئی نسل آسانی سے سوشل میڈیا کے اثر میں آ جاتی ہے کیونکہ اُن کے سامنے نہ تو 1971 کی تاریخ ہے، نہ وہ پڑھتے ہیں اور نہ وہ اتنی گہرائی سے جاننا چاہتے ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’وہاں (بنگلہ دیش) کی نئی نسل اس کو قبول نہیں کر پا رہی ہے۔ آپ بار بار کہیں گے کہ آپ کا وجود ہماری وجہ سے ہے اور ہمارے بغیر آپ کا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا، تو نئی نسل اس طرح کی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
نیا نیما کہتی ہیں کہ ’شیخ حسینہ کے گذشتہ 15 سال کے دورِ اقتدار میں انڈیا کی حکومت نے کبھی بھی کسی اپوزیشن جماعت سے پوری طرح تعلق قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انڈیا نے اس حقیقت کو فراموش کیا کہ بنگلہ دیش میں سٹوڈنٹ ونگ کی سیاست بہت مضبوط ہے۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’بنگلہ دیش میں انڈیا کی طرح کے سٹوڈنٹ ونگز نہیں ہیں کہ اُن کو مار پیٹ کر دبا دیں، وہاں ہر سیاسی جماعت کا سٹوڈنٹ ونگ بہت مضبوط ہے۔ اُن کے ساتھ بھی انڈیا کو رابطہ کرنا چاہیے تھا، لیکن اس نے انھیں پوری طرح نظر انداز کیا، اس سے عدم اعتماد کا ماحول اور بھی خراب ہوا۔‘
نیا نیما باسو کہتی ہیں کہ ’انڈیا کی حکومت اب خالدہ ضیا کی پارٹی بی این پی پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ یہ اس کے مفاد میں ہے کہ بنگلہ دیش میں آزادانہ اور شفاف انتخابات ہوں تاکہ وہ عبوری حکومت کے بجائے مستقبل میں ایک منتخب حکومت سے ڈیل کر سکے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کچھ دنوں پہلے خالدہ ضیا کی صحتیابی کے لیے پیغام ٹویٹ کیا تھا۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ انڈیا بنگلہ دیش کے انتخابی تناظر میں عوامی لیگ کی عدم موجودگی میں بی این پی کو سب سے بڑی پارٹی کے طور پر دیکھ رہا ہے اور اس سے آنے والے دنوں کے لیے فضا بھی ہموار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حالانکہ اگر انڈیا نے بی این پی کی طرف یہ پیش قدمی پہلے کی ہوتی تو کچھ اور ہی بات ہوتی۔‘
باسو نے کہا کہ ’انڈیا کو اس بات کا علم ہے کہ شیخ حسینہ تو ایک طرف، عوامی لیگ کا بھی فی الحال واپس اقتدار میں آنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس پر پابندی عائد ہے۔‘

،تصویر کا ذریعہFOCUS BANGLA
سیاسی تجزیہ کار نروپما سبرامنین کا بھی خیال ہے کہ انڈیا اب بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اپنا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ’انڈیا کو پتا ہے کہ عوامی لیگ اس الیکشن سے باہر ہے اور اسے بنگلہ دیش کے بارے میں عوامی لیگ سے باہر نکل کر دیکھنا ہو گا۔‘
نروپما سبرامنین کے مطابق ’بی این پی کے ساتھ انڈیا نے حال میں اپنے روابط قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آتی ہے تو انڈیا بی این پی کے ساتھ معمول کے رشتے استوار کرنے کے لیے تیار ہے۔ پہلے بھی بی این پی سے اس کے تعلقات رہے ہیں۔‘
نروپما سبرامنین کہتی ہیں کہ ’شیخ حسینہ (انڈیا میں بیٹھ کر دیے گئے) اپنے بیانات سے بنگلہ دیش میں اپنا اور اپنی پارٹی کا مستقبل محفوظ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن انڈیا کو محتاط رہنا چاہیے کہ اُن کے بیانات سے بنگلہ دیش سے تعلقات اتنے خراب نہ ہو جائیں کہ مستقبل کی حکومت سے انڈیا کے لیے ڈیل کرنا ہی مشکل ہو جائے۔‘
تجزیہ کار سوشانت سرین نے انڈین خبر رساں ادارے ’اے این آئی‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’میرے خیال میں اب بھی بنگلہ دیش میں ایسے عناصر ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اچھے تعلقات دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں۔ لیکن پاکستان حامی عناصر اُن پر حاوی ہوتے جا رہے ہیں۔ انڈیا کو بنگلہ دیش سے ڈیل کرنے کے لیے ازسرِ نو سوچنا پڑے گا۔ یہ انڈیا کے لیے ایک سبق ہے۔‘
مبصرین کے مطابق انڈیا کی اب ساری توجہ بنگلہ دیش میں 12 فروری کے عام انتخابات پر مرکوز ہے، لیکن اس سے پہلے بنگلہ دیش میں پرتشدد واقعات اور انڈیا میں بنگلہ دیش مخالف مظاہروں سے دونوں ملکوں کی فضا گرم ہے۔
بنگلہ دیش کی جماعتیں انڈیا پر الزام لگا رہی ہیں کہ وہ ان کے ملک کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے، جبکہ انڈیا اس کی تردید کرتا ہے۔ ایسی صورت میں بنگلہ دیش کے انتخابات میں بھی انڈیا ایک بہت اہم انتخابی موضوع ہو گا۔













