فوج نے تشدد نہیں کیا: مصری وزیرِ دفاع

مصر کے وزیرِ دفاع عبدالفتاح السیسی نے سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف احتجاجی تحریک کے دوران فوج کی جانب سے مظاہرین پر مظالم کے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔
واضح رہے کہ جمعرات کو برطانوی اخبار گارڈین میں شائع ہونے والی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق مصر میں فوج سال دو ہزار گیارہ میں انقلاب کے دوران تشدد اور ہلاکتوں کے واقعات میں ملوث تھی۔
یہ رپورٹ رواں سال کے شروع میں مصر کے صدر محمد مرسی کو پیش کی گئی تھی۔
جنرل عبدالفتاح السیسی نے اس خبر کو فوج کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ فوج نے کسی عام شہری کو قتل نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج کو صدر محمد مرسی کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
خیال رہے کہ مصر میں سال دو ہزار گیارہ میں اس وقت کے صدر حسنی مبارک کے خلاف عوامی تحریک کے دوران فوج نے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا تھا اور خونریزی کے زیادہ تر الزامات پولیس پر لگے تھے۔
سابق صدر کے خلاف احتجاج کے دوران سینکڑوں افراد مارے گئے تھے اور اس دوران کئی ہلاکتوں کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہو سکا۔
قاہرہ میں بی بی سی کے نامہ نگار علیم مقبول نے بتایا تھا کہ رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف اٹھارہ دن کی تحریک کے دوران مصری فوج حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں میں ملوث تھی۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اس رپورٹ میں ان عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کیے گئے ہیں جنہوں نے فوجی چیک پوسٹوں پر شہریوں کو حراست میں لیتے ہوئے دیکھا تھا اور بعد میں ان شہریوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔
اس کے علاوہ یہ شواہد بھی پیش کیے گئے ہیں کہ فوج نے قاہرہ کے التحریر چوک سے مظاہرین کو حراست میں لینے کے بعد قریبی عجائب گھر میں ان کے ساتھ تشدد کیا اور بعد میں فوج کے جیل خانوں میں بھیج دیا گیا۔
برطانوی اخبار گارڈین کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ ایک تحقیقاتی کمیٹی نے مرتب کی تھی اور اسے رواں سال کے شروع میں صدر مرسی کو پیش کیا گیا تھا لیکن اسے منظرعام پر نہیں لایا گیا اور اخبار نے رپورٹ کا ایک باب افشاء کیا۔
اس کمیٹی کے ممبران نے بتایا تھا کہ اس تحقیقاتی رپورٹ کی تیاری میں فوج نے تعاون نہیں کیا تھا۔ اس کمیٹی میں حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے وکلاء بھی شامل تھے۔







