’مصری فوج تشدد کے واقعات میں ملوت تھی‘

برطانوی اخبار گارڈین میں شائع ہونے والی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق مصر میں فوج سال دو ہزار گیارہ میں انقلاب کے دوران تشدد اور ہلاکتوں کے واقعات میں ملوث تھی۔
یہ رپورٹ رواں سال کے شروع میں مصر کے صدر محمد مرسی کو پیش کی گئی تھی۔
مصر میں سال دو ہزار گیارہ میں اس وقت کے صدر حسنی مبارک کے خلاف عوامی تحریک کے دوران فوج نے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا تھا اور خونریزی کے زیادہ تر الزامات پولیس پر لگے تھے۔
سابق صدر کے خلاف احتجاج کے دوران سینکڑوں افراد مارے گئے تھے اور اس دوران کئی ہلاکتوں کا معلوم ہی نہیں ہو سکا۔
قاہرہ میں بی بی سی کے نامہ نگار علیم مقبول کے مطابق رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف اٹھارہ دن کی تحریک کے دوران مصری فوج حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں میں ملوث تھی۔
اس رپورٹ میں ان عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کیے گئے ہیں جنہوں نے فوجی چیک پوسٹوں پر شہریوں کو حراست میں لیتے ہوئے دیکھا تھا اور بعد میں ان شہریوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔
اس کے علاوہ یہ شواہد بھی پیش کیے گئے ہیں کہ فوج نے قاہرہ کے التحریر چوک سے مظاہرین کو حراست میں لینے کے بعد قریبی عجائب گھر میں ان کے ساتھ تشدد کیا اور بعد میں فوج کے جیل خانوں میں بھیج دیا گیا۔
برطانوی اخبار گارڈین کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ ایک تحقیقاتی کمیٹی نے مرتب کی تھی اور اسے رواں سال کے شروع میں صدر مرسی کو پیش کیا گیا تھا لیکن اسے منظرعام پر نہیں لایا گیا اور اخبار نے رپورٹ کا ایک باب افشاء کیا ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
حال ہی میں اس کمیٹی کے ممبران نے بتایا تھا کہ اس تحقیقاتی رپورٹ کی تیاری میں فوج نے تعاون نہیں کیا تھا۔ اس کمیٹی میں حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے وکلاء بھی شامل تھے۔
بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق سابق صدر کے خلاف تحریک کے دوران ہلاکتوں کی زیادہ تر ذمہ داری پولیس پر عائد کی گئی تھی تاہم اب بھی یہ معین کرنے کی بہت ضرورت ہے کہ فوج نے عوامی تحرک کو پرتشدد طریقے سے دبانے کی کوشش کی تھی اور عام شہری لاپتہ ہوئے تھے اور ایک اندازے کے مطابق درجنوں سے لے کر سینکڑوں افراد کا ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔







