وہ حکومتیں جو معیشت کو بچانے کے لیے منفی شرح سود پر قرض دیتی ہیں

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, سسیلا باریا
- عہدہ, بی بی سی منڈو سروس
اگر کسی ملک میں شرح سود کم ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بچت کرنے کا سب سے برا وقت ہے۔ اس لیے لوگوں اور کمپنیوں سے زیادہ خرچ کروانے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ سود کی شرح کم کر دی جائے۔
2008 کی کساد بازاری کے بعد متعدد ممالک نے شرح سود میں ریکارڈ کمی کی اور 'سستے پیسے' کے دور میں داخل ہو گئے۔ چند ممالک نے تو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے شرح سود منفی کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس پالیسی کو متعارف کروانے والا پہلا ملک ڈنمارک تھا۔ پھر جاپان، سوئٹزرلینڈ اور سویڈن نے اس طریقہ کار کو اپنایا۔
اب کووڈ نائنٹین کے سبب جب دنیا بھر کی معیشتیں مشکلات سے دو چار ہیں، تو امریکہ اور یوروپ میں بیاج کی شرح صفر ہے۔
ابھی بھی کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں صفر سے بھی کم شرح سود ہے جیسے ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ اور جاپان۔
جاپان نے اپنی شرح سود مائنس 0.1 فیصد رکھی ہے اور وہ اگلے چند برسوں تک اس میں تبدیلی لانے کے بارے میں غور بھی نہیں کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی

،تصویر کا ذریعہTOKYO
معیشت کو بچانے میں شرح سود کا کردار
جاپان میں معاشی پالیسیوں کے لیے ذمہ دار ادارے کے سربراہ، بینک آف جاپان کے گورنر ہاروہیکو کوروڈا نے چند ہفتے قبل کہا تھا کہ شرح سود 'کافی کم رہے گی' تاکہ معیشت کو وباء کے منفی اثرات سے محفوظ رکھا جا سکے۔
2013 میں سینٹرل بینک کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد کوروڈا نے اشیاء اور خدمات کے گرتے ہوئے داموں سے نمٹنے کے لیے بانڈ خریدنے کے بڑے پروگرام کا اعلان کیا۔ اسے 'کوروڈاز بزوکا' کہا جانے لگا۔
لیکن جب امید کے مطابق نتائج حاصل نہیں ہوئے تو سنٹرل بینک نے شرح سود کو مائنس 0.1 فیصد کرنے کا اس سے بھی بڑا فیصلہ کیا۔
اس سے بینک آف جاپان کو کمرشل بینکوں سے ان کے جمع ریزرو پر چارج وصول کرنے کا موقع ملا۔
اس کا مقصد تھا کمرشل بینکوں کو اپنے ریزرو کا استعمال کر کے قرض دینے پر مجبور کرنا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قرض ملے اور معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر لایا جا سکے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
شنزو آبے کی 'آبےنامکس'
کوروڈا کی حکمت عملی 2012 میں جاپانی وزیرا عظم شنزو آبے کے منصوبوں سے جا ملی۔ اس پالیسی کو 'آبےنامکس' کہا جانے لگا۔
آبےناکمس کے تین ستون تھے: ملک کے سالانہ مالیاتی اخراجات میں اضافہ، معاشی ڈھانچے میں تبدیلیاں اور طویل مدت کے لیے ایسی معاشی پالیسی لائی جائے جو برسوں سے تھمی ہوئی معیشت میں جان ڈال سکے۔
'سنٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز' کے میتھیو گڈمن کے مطابق 'آسانی سے پیسے دینے کی جاپان کی پالیسی سب سے اہم تھی۔'
ماہرین کا خیال ہے کہ گورنر نے ایک مختلف قسم کی کوشش تو کی ہے، لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وباء سے قبل بھی بینک مجوزہ 2 فیصد افراط زر کے ٹارگٹ کو پورا کرنے میں ناکام رہے تھے۔
گڈمن کہتے ہیں 'اس عمل نے معیشت کو نیچے اور عام طور پر تفریط زر کے دباوٴ میں رکھا۔'
یہ بھی پڑھیے:

،تصویر کا ذریعہGetty Images
عام معاشی نشونما
دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ معاشی نتائج بہت معقول ہیں۔ پیٹرسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کے ایک محقق تاکیشی تشیرو کہتے ہیں 'گذشتہ ایک دہائی میں جاپان میانہ روی سے معاشی بہتری کی جانب بڑھا ہے۔'
ان سے متوقع نتائج تو موصول نہیں ہو سکے لیکن ایک دہائی میں معاشی حالات میں سدھار ضرور ہوا ہے۔ اب جاپان کو کم عرصے میں کووڈ نائنٹین کے سبب پیدا پونے والی معاشی مشکلات سے نمٹنا ہے۔
میتھیو گڈمن کہتے ہیں'جاپان تفریط زر، قرض اور آبادی کی بڑھتی عمر کے مسائل سے دو چار ہے۔'

،تصویر کا ذریعہTOKYO
حال کے چند برسوں میں جاپانی نظام زر کی پالیسی کے تجربے پر معاشی امور کے ماہر پال شیئرڈ بتاتے ہیں کہ جاپان میں کم شرح سود کی مدت کے دوران حکومت نے ملک کے مالی استحکام کو بڑھاوا دیا ہے اور مختلف مدتوں میں اس سے متعلق پالیسیوں کو سخت بھی کیا ہے۔
فی الحال ملک کو ایک وباء کے درمیان کھپت اور سرمایہ کاری کو بڑھانے کی کوششیں جاری رکھنی ہوں گی۔ وہ بھی کم عمر آبادی میں ہونے والی کمی کے ساتھ۔









