کورونا وائرس: کیا لائیو سٹریمنگ چینی معیشت کو بچا سکے گی؟

چین
،تصویر کا کیپشنچین کی لائیو سٹریمنگ معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم کی صورت اختیار کر چکی ہے
    • مصنف, ونسنٹ نی اور یِٹسنگ وانگ
    • عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس

چین کے مشہور شہر ووہان کے نائب میئر لی کیانگ نے شاپنگ کے لائیو سٹریمنگ کے سب سے بڑے ایونٹ کا آغاز کرتے ہوئے اپنے رد عمل میں کہا کہ ’میں کچھ گھبرا رہا ہوں۔‘ ووہان حال ہی میں کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ مشہور شہر بن گیا ہے۔

عموماً چین کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں سے ہم اس طرح کی باتیں نہیں سنتے ہیں۔ لیکن کورونا وائرس جیسے تباہ کن واقعے کے بعد چین کی معیشت کی بحالی کے لیے کی جانے والی کوششوں کی کامیابی کے ساتھ لی کیانگ عزمِ مصمم لیے ہوئے موجود ہیں۔

وہ اپنے ایک پسندیدہ ریستوران کے سامنے بڑی چاہ کے ساتھ ووہان کے خشک نوڈلز سمیت، مقامی مزیدار غذاؤں کی تعریف کرتے ہوئے لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ ان سے لطف اندوز ہوں۔

ملکی سطح پر ہونے والے دو ماہ کے طویل لاک ڈاؤن کے قومی معیشت پر بہت تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس برس پہلے تین ماہ اس کی معیشت 6.8 فیصد سکڑ گئی ہے۔ چیئرمین ماؤزےدُنگ کی 1976 میں موت کے بعد پہلی مرتبہ چین کی معشیت پھیلنے کی بجائے کم ہوئی ہے۔

لیکن ماضی کی نسبت اب چینی رہنما زیادہ عملیت پسند ہیں، خاص کر ایک ایسے وقت میں جب چین کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت ایک ایسے دور سے گزرنے جارہی ہے جس کا چین کو اس سے پہلے کوئی تجربہ نہیں ہے۔

بی بی سی
بی بی سی

ووہان چین کے صوبے ہُوبائی کا دارالحکومت ہے۔ پورے صوبے میں معیشت کی بحالی کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا گیا ہے۔ ہر گھر کے کروڑوں چینیوں کو شامل کیا گیا ہے جہاں ان سے چین کی نامور شخصیت اس مہم میں شامل ہونے کو کہہ رہی ہیں۔ میئر لی اور ان کے رفقا مقامی مصنوعات کی تشہیر کر رہے ہیں اور سیلز کے اعداد و شمار پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔

اور نتائج کیا برآمد ہورہے ہیں؟ چین کا مقامی میڈیا بتا رہا ہے کہ مہم کے آغاز کے پہلے دن یعنی اٹھ اپریل کو صوبہ بھر میں لائیو سٹریمنگز کی وجہ سے 25 لاکھ ڈالرز کی سیل ہوئی۔ انھوں نے پہلے نو گھنٹوں میں تین لاکھ اشیا فروخت کیں، ان میں 40 ہزار کے قریب میئر لی کے پسندیدہ خشک نوڈلز بھی شامل تھے۔

چین

،تصویر کا ذریعہDOUYIN

،تصویر کا کیپشنووہان کی نائب میئر کی لائیو سٹریمنگ کے دوران کیمرے پر بنایا گیا سکرین شاٹ

اس وقت ہُوبائی ہی وہ واحد صوبہ نہیں ہے جو چین کی لائیو سٹریمنگ کی صنعت سے استفادہ کر رہا ہے۔ ہونان، شینڈونگ اور گوانگزی کے کئی مقامی رہنما اور حکام ’سماجی فاصلہ' اپناتے ہوئے اب خود سے اپنے علاقوں کی مصنوعات کے سیلزمین بن گئے ہیں۔ وہ اپنے علاقوں کی مصنوعات کی تشہیر کر کے اب اپنے عوام کے سامنے کمیونسٹ پارٹی کی ایک نئی شبیہ پیش کر رہے ہیں۔

شنگھائی شہر سے تعلق رکھنے والی مارکیٹنگ کی ایک کمپنی، فائرورکس کے سربراہ اینڈریا فین کہتے ہیں کے وبا کے دوران لائیو سٹریمنگ کے ذریعے سیل بڑھانے کے طریقے نے ’یقیناً امید پیدا کی ہے اور سیل کی کمپنیوں کے لیے کئی در کھولے ہیں تاکہ وہ مارکیٹنگ میں سرمایہ کاری کریں جسے سے سروسز سیکٹر کے علاوہ دیگر صنعتی شعبوں کو بھی مدد ملتی ہے۔‘

چین

،تصویر کا ذریعہCNS Image

،تصویر کا کیپشنگوانگ زی شہر کا میئر لائیو سٹریمنگ میں شامل ہو رہا ہے۔

لپ سٹک نمبر 1

تاہم کاروبار بڑھانے کا یہ کوئی اعلیٰ قیادت سے تھونپا گیا طریقہِ کار نہیں ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے لائیو سٹریمنگ میں شامل ہونے سے پہلے ہی سے چین کی ٹِک ٹاک جیسی کمپنی ’ڈوین‘، ’کوائی شاؤ‘ اور ’علی بابا‘ کی تاؤ باؤ جیسی سمجھدار کاروباری کمپنیاں اپنی سیل بڑھانے کے لیے لائیو سٹریمنگ پلیٹ فارموں پر پہنچ چکی تھیں۔

ایسی ہی طرح کے لوگوں میں 27 برس کے لی ٹسیاسی ہیں جنھوں نے مارکیٹنک کے اپنے منفرد انداز کی وجہ سے ایک نئے ’لپ سٹک نمبر 1‘ کے نام سے شہرت پائی۔ وہ پہلے جنوب مشرقی شہر چین کے شہر نانچبگ میں ایک دوکان میں ایک نائب سیلز مین کے طور پر کام کرتے تھے۔ اب ان کے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ’ڈوین‘ پر چار کروڑ فالؤرز ہیں۔

چین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنلائیو سٹریمنگ کرتے ہوئے بیوٹی بلاگر لی ٹسیاسی اپنے ہونٹوں پر لپ سٹک لگا لیتے تھے

اپنے ایک لائیو سٹریمنگ کے سیشن میں لی ٹسیاسی نے 15000 لپ سٹکس صرف پانچ منٹوں میں فروخت کیں۔ دوسرے بیوٹی بلاگرز کے برعکس، لی ٹسیاسی اپنی تشہیر کے لیے اپنی لپ سٹک اپنے ہونٹوں پر لگا کر دکھاتے تھے، نہ کہ اپنے بازوؤں پر۔ اُس کے اس انداز کا اسے فائدہ ہوا کیونکہ خبروں کے مطابق اس کی سیل 50 لاکھ ڈالر تک بڑھ گئی۔

اسی طرح کی ایک اور 33 برس کی وےیا ہیں جن کی تاؤباؤ پلیٹ فارم پر یکم اپریل کو ایک راکٹ کی سیل 60 لاکھ ڈالرز میں کی تھی جس نے پوری چینی قوم کو حیران کر دیا۔ یہاں تک کہ اس سیل کے بعد تاؤباؤ کو ایک وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا کے یہ سیل حقیقی تھی نہ کہ اپریل فول کا ایک مذاق تھا۔

وےیا پہلے ہی سے چین میں لائیو سٹریمنگ پر سیل سے واقف تھیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے فالؤرز اسے ’مصنوعات کی ملکہ‘ کہتے ہیں۔

چین کے سرکاری اخبار 'چائینا ڈیلی' کے مطابق 'لائیو نشریات کے دوران کسی راکٹ کی یہ پہلی فروخت تھی۔' چینی سوشل میڈیا وےبو نے #WeiYaSellsARocket کا ہیش ٹیگ استمال کیا اور بیس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے راکٹ کی اس فروخت کی لائیو سیل کو دیکھا۔’

چین

،تصویر کا ذریعہTaobao/Sina Weibo

،تصویر کا کیپشنچین کی نامور سیل اینکر وےیا کے ستر لاکھ فالؤرز ہیں

کیا لائیو سٹریمنگ چین کی معیشت کو بچا سکتی ہی؟

لائیو سٹریمنگ کے اس کام میں اب غیر ملکی کمپنیاں بھی شامل ہو رہی ہیں۔ پر تعیش مصنوعات بنانے والی کمپنی لوئی ویٹان نے چین کی مارکیٹ میں آنے کے تیس برس بعد پہلی مرتبہ مارچ میں لائیو مارکیٹنگ کا ایک ایونٹ منعقد کیا تھا۔

فروری میں جب چین میں کووِڈ-19 کی وبا اپنے عروج پر تھی اس وقت سے تاؤباؤ پلیٹ فارم پر سب سے زیادہ تعداد میں لائیو ایونٹ ہوئے ہیں، صرف اس پلیٹ فارم پر پورے ملک میں سیل میں 719 فیصد اضافہ ہوا۔

چین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنچین کے ژین جیانگ صوبے میں ایک اینکر لائیو سٹریمنگ کے دوران بستروں کی چادروں کی فروخت کر رہا ہے۔

اگرچہ اس طریقے سے ہر کمپنی کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔ مارکٹنگ کنسلٹنسی کمپنی کے سربراہ اینڈریا فین کہتے ہیں کہ موجودہ جنون کی وجہ سے اس وقت سیل بڑھانے کی اس مارکیٹ میں بھی تیزی سے ہجوم بڑھ رہا ہے۔

’شروع میں آنے والوں کو (شوقیہ اور غیر پیشہ ورانہ انداز کی) لائیو سٹریمنگ کا بھی بہت فائدہ ہوا کیونکہ اس وقت یہ انداز تازہ اور بالکل نیا تھا۔‘

'اور اب ہزاروں کی تعداد میں لائیو سٹریمنگز ہو رہی ہیں اور گاہک یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ پھر سے کمینیوکیشن کے اس دور میں آگئے ہیں جو سنہ نوے کی دہائی کی ٹیلی مارکیٹنگ جیسی لگتی ہے۔'

'(اس وجہ سے) گاہکوں میں تھکان بڑھی ہے جس کی وجہ سے میں کئی ایک کمپنیوں کو اس طریقے سے اپنی سیل بڑھانے کی کوششوں میں ناکامیاں دیکھ رہا ہوں۔'

چین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنچین کے ایک شہر گونگ ژاؤ کا ایک سٹور لائیو سٹریمنگ کے دوران خواتین کےکپڑے فروخت کر رہا ہے

چین کی ایک نامور شخصیت اس بات کی گواہی دیں گے۔ اپریل میں 48 برس کے ایک انگریزی کے ٹیچر جو کہ اب انٹرنیٹ کی نامور شخصیت ہیں، لُو یونگ ہاؤ کو اس وقت میڈیا کی شہ سرخیوں میں آئے تھے جب انھوں نے سیل کے ایک لائیو سٹریمنگ ایونٹ کا افتتاح کیا تھا۔

اس ایونٹ کو پانچ کروڑ افراد نے دیکھا اور اس کے آغاز کے تین گھنٹوں کے اندر ہی اس میں ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی سیل ہوئی۔

اس کے بعد اگلے دو ہفتوں میں لُو یونگ ہاؤ نے دو اور لائیو سٹریمنگ کے ایونٹ منعقد کرائے، لیکن انھیں اتنی کامیابی نہیں ہوئی۔ چینی میڈیا کہتا ہے کہ ان کے اگلے ایونٹس کو دیکھنے والے کی تعداد میں 83 فیصد کمی آئی جبکہ سیل کا حجم 48 فیصد کم ہو گیا۔

اینڈریا فین کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں یہ سب باتیں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں 'صرف یہ (لائیو سٹریمنگ) اقتصادی ترقی کی نِمو کو برقرار رکھنے کے لیے کافی نہیں ہو گی۔‘