|
بھارتی ٹیم کو نئی امنگ کی ضرورت | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بھارت کی کرکٹ ٹیم کے لئے نیا کوچ اور نیا کپتان ہی کافی نہیں ہے بلکہ نئی امنگ کی بھی ضرورت ہے۔ یہ گزشتہ سال کی ہی بات ہے جب انضمام الحق نے دعا کی تھی کے کاش وہ سورو گنگولی کی جگہ ہوتے اور آج انڈین ٹیم کہاں ہے۔اس وقت ٹیم کو بہتر بنانے کاصرف ایک معیار ہے کہ آسٹریلیا کو چیلنج کس طرح کیا جائے۔ کوچ کے انتخاب کا سلسلہ ابھی شروع ہوا ہے اور کپتانی پر بحث جاری ہے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ بھارت کو کامیابی سے الرجی ہے۔ آسٹریلیا کے کوچ جان بچانن نے اس بات کی بھی تصدیق کر دی کہ انہوں نے ورلڈ کپ 2007 میں اپنے دفاع کا خاکہ بھی تیار کرنا شروع کر دیا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔ اگر اس سلسلے میں بھارتی ٹیم کا بھی کوئی منصوبہ یا خاکہ ہے تو وہ ابھی تک راز میں ہے۔ بھارتی ٹیم کی کوچنگ کے لئے ایک پینل نے ٹام موڈی ، گریگ چیپل ، مہندر امرناتھ اور سندیپ پاٹل کو نامزد کیا ہے مگر اس سلسلے میں فوری فیصلہ سب کے حق میں بہتر ہوگا۔ کیونکہ کسی بھی کوچ کو چاہے وہ بھارتی ہو یا غیر ملکی اسے ٹیم کا انتخاب کرنے والی کمیٹی کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے، اکیڈمی کھلاڑیوں کو دیکھنے، کھلاڑیوں کی فٹنس رپورٹ کا جائزہ لینےاور پچ کو سمجھنے کے لئے وقت چاہیے۔ جہاں تک دیسی یا غیر ملکی کوچ پر موجودہ بحث کا تعلق ہے تو اس بارے میں آپ بہتر سے بہتر انتخاب کرنا چاہیں گے جان رائٹ نے بہتر ڈسپلن ، کھیل کے ضابطے اور بہتر وژن کے ساتھ اچھا میعار قائم کیا تھا۔ کوچنگ کا کام ایک بھارتی ہونے سے کہیں زیادہ اہم ہے اور کسی ہندوستانی میں اتنی صلاحیتیں نظر نہیں آرہیں۔ جو لوگ اس بات کو حب الوطنی کا مسئلہ بنا رہے ہیں وہ اس بات کو بھول رہے ہیں کہ کسی بھی چیز کو سیکھنے کے لئے جغرافیائی حدود کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ یہ کہنا کہ صرف ہندوستانی کوچ ہی انڈین ٹیم کے ڈریسنگ روم کا کلچر سمجھ سکتا ہے بلکل ٹھیک ہے جبکہ ڈریسنگ روم کے اسی کلچر کو ہی بدلنے کی ضرورت ہے۔
کرکٹ کے لئے زبان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے حالانکہ ہم کبھی کبھی کرکٹ کو بھی ایسا ہی بنا دیتے ہیں۔ لیکن اس تمام معاملے میں کپتانی کا مسلہ سب سے زیادہ اہم ہے اور یہ ایک غیر مستحکم ٹیم میں تباہی پیدا کر سکتا ہے۔ اگر بھارت یہ فیصلہ کر لے کہ سورو گنگولی پر چھ میچ کھیلنے پر پابندی کے دوران کپتان بنائے گئے راہل دراوڈ عارضی ہیں یا پھر لمبے عرصے تک رہیں گے تو ٹیم کے لئے بہتر ہوگا۔کیونکہ اگر ٹیم کو چلانے والے کپتان کے بارے میں ہی صحیح صورتِ حال پتہ نہ ہو تو ٹیم بھی کنفیوژن کا شکار رہتی ہے۔ دراوڈ بطور کپتان بھارت کے اعتماد کو تقویت دے سکتے ہیں۔ بھارت میں جب بھی کپتانی پر بحث ہوتی ہے تو وہ ذاتی نوعیت کی ہو جاتی ہے چاہے آپ گنگولی کے ناقدین میں سے ہوں یا پھر حامیوں میں سے ہوں ان کی قیادت کا ریکارڈ بہت اچھا رہا ہے ان سے صرف اتنی غلطی ہوئی کہ انہوں نے ایک طاقتور ورثے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے ۔ گنگولی کی بیٹنگ اس وقت مضبوط نہیں ہے اور ہر بلے باز کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔ اب بھارت کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ ایسے شخص کی قیادت منظور کریں گے جو کپتانی کے ساتھ ساتھ اپنی بلے بازی پر بھی دوبارہ قابو کرنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہو۔ گنگولی ٹیم کو اپنے ساتھ کافی دور تک لائے اپنی ذمہ داریاں دوسرے کو سوپنے میں کوئی برائی نہیں اور اگر دراوڈ میں ٹیم کو سنبھالنے کی صلاحیت ہے تو یہ ان کے کام سے ہی ظاہر ہوگا۔
لیکن اس تمام معاملے میں کھلاڑیوں کو صرف بورڈ یا قیادت کا ہی منہ نہیں دیکھنا چاہیے، ہر کھلاڑی میں جواب دہی کا جذبہ اور عزم ہونا چاہیے اور ہر کھلاڑی کو اپنے طور پر کھیل کا میعار قائم کرنا چاہیے جس میں صرف 50 رن بنا کر یا پھر تین ٹیسٹ میچ پہلے پانچ وکٹ لیکرمطمئن نہ ہوں ۔ ہمیں اب بھی بھارتی ٹیم سے بہت امیدیں ہیں اس کے وجہ ہے کیونکہ ٹیم اس سے پہلے بہترین کارگردگی کگ مظاہرہ کر چکی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ٹیم کے کھلاڑیوں کی صلاحیتیں صرف عارضی طور پر ماند پڑی ہیں۔ |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||