پاکستان بمقابلہ نیدرلینڈز: 'شاید یوں بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں'

نسیم

،تصویر کا ذریعہKNCB

    • مصنف, سمیع چوہدری
    • عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار

گذشتہ پی ایس ایل میں، بطور کپتان لاہور قلندرز، شاہین آفریدی عموماً آخری اوور زمان خان سے پھینکوایا کرتے تھے۔ اور زمان خان کی ڈیتھ اوورز بولنگ سے بھی زیادہ شہرت ان کی اس مسکراہٹ کو ملی جو ایک معمول کی طرح، ہمیشہ میچ کی فیصلہ کن چھ گیندیں پھینکنے سے پہلے ان کے چہرے پہ دمک رہی ہوتی۔

فاسٹ بولرز کے لیے مسکراہٹ ویسے ہی ایک نامانوس سی شے ہوتی ہے۔ ان کا جنون، جوش اور بات بے بات غصہ ہی ان کی پہچان ہوتے ہیں۔ مگر ماڈرن کرکٹ میں فاسٹ بولرز کی ایک نئی پود سامنے آئی ہے جو روایتی جھنجھناہٹ اور طعن گوئی کی بجائے ہنستے مسکراتے حساب چکانے سے لطف اندوز ہوتی ہے۔

نیوزی لینڈ کے ٹرینٹ بولٹ اس لہر کا نمایاں ترین چہرہ ہیں۔ ان کی مخصوص مسکراہٹ ہمہ وقت ان کے ہمراہ ہوتی ہے۔ کبھی تیوریاں چڑھی نہیں ہوتیں۔ بولٹ کے بقول یہ مسکراہٹ ان کے اعصاب کو پر سکون رکھنے اور بہتر فیصلہ سازی میں مددگار رہتی ہے۔

اسی لہر کے ایک اور قابلِ ذکر نام نیوزی لینڈ ہی کے لوکی فرگوسن ہیں۔ فرگوسن اپنے منفرد ایکشن کے ساتھ ڈیڑھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند پھینکتے ہیں، مگر جو جارحیت ان کی بولنگ کا خاصہ ہے، وہ اسے اپنی شخصیت پہ بالکل حاوی نہیں ہونے دیتے۔

اور زمان خان ہی کی طرح محمد وسیم بھی اپنی مسکراہٹ کو ہمیشہ ہمراہ رکھتے ہیں۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کے لیے بھی جب وہ ڈیتھ اوورز کی بولنگ سنبھالتے رہے ہیں تو اسی تحمل، سکون اور مہارت سے اپنے حصے کا بار اٹھاتے رہے ہیں۔ یہاں بھی بابر اعظم نے میچ کی فیصلہ کن چھ گیندوں کے لیے محمد وسیم کا ہی انتخاب کیا۔

اگرچہ نیدرلینڈز اپنے کرکٹنگ قد کاٹھ میں پاکستان سے کہیں چھوٹی ٹیم ہے مگر آخری اوور میں مطلوبہ رن ریٹ ماڈرن کرکٹ کے اعتبار سے ہرگز ناقابلِ حصول نہیں تھا۔ جیسے محمد وسیم پہلی گیند اچھی پھینکنے کے باوجود چار رنز دے بیٹھے، ایسی ہی کوئی ایک اور غلطی ڈچ کرکٹ کے لئے کسی یادگار لمحے میں بھی بدل سکتی تھی۔

مگر محمد وسیم نے اپنے اعصاب مجتمع رکھے اور آرین دت کے تخمینوں کو مات کر ڈالا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان نے بجا طور پہ اپنے بینچ کو موقع دیا کیونکہ ایک ایسوسی ایٹ ٹیم کے خلاف سیریز جیت جانے کے بعد بھی اپنے کلیدی کھلاڑیوں کے بغیر جگر آزمائی نہ کرنا بے وقوفی ہوتی۔ گو، کچھ نئے چہرے خاطر خواہ پرفارمنس نہ دکھا پائے مگر انٹرنیشنل کرکٹ کی سطح پہ ایک ایسے سنسنی خیز میچ سے گزر کر جیت تک پہنچنے کا تجربہ تو ان کے کرئیر کا حصہ بن ہی گیا۔

نیدرلینڈز نے پاکستان کی توقع سے کہیں بہتر کرکٹ کھیلی۔ دوسرے میچ کے سوا، باقی دونوں مقابلوں میں ڈچ ٹیم بابر اعظم کی فیصلہ سازی کا امتحان لیتی رہی۔ یہاں بھی پاکستانی بیٹنگ کے لیے ایک امتحان درپیش تھا مگر بابر اعظم نے ایک بار پھر پوری اننگز کا بوجھ اٹھایا۔

netherlands

،تصویر کا ذریعہKNCB

بعینہٖ بولنگ لائن کے لیے بھی یہ ایک چیلنج تھا کہ حارث رؤف اور شاداب خان کی غیر موجودگی میں ایک ایسے مختصر سے مجموعے کا دفاع کیونکر کیا جائے۔ یہاں یہ میچ بابر اعظم کے لیے بھی ایک کلیدی سبق ثابت ہوا کہ ایک چھوٹے سے ہدف کے دفاع میں اپنے محدود بولنگ وسائل کا بہترین استعمال کیا ہو سکتا ہے۔

ٹام کوپر نیدرلینڈز کے لیے ہمیشہ امید کی کرن ثابت ہوئے مگر شومئی قسمت کہ کبھی اپنی ٹیم کو ہدف کے پار نہ پہنچا پائے۔ یہاں ان کی بدقسمتی نسیم شاہ کی شاندار بولنگ میں نہاں تھی جو بیٹنگ کے لیے پہلے ہی دشوار کنڈیشنز میں اپنی سادہ اور درست لائن و لینتھ پہ پیس کے گولے برسا رہے تھے۔

اس محنت کے بل پہ نسیم شاہ نے اپنے ون ڈے کرئیر میں پہلی بار پانچ وکٹیں بھی حاصل کی جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ان کے لیے بھی کرئیر کا ایک یادگار لمحہ رہے گا۔

شاہین آفریدی کی ایشیا کپ سے عدم دستیابی کے جھٹکے کے بعد نسیم شاہ کی اس برق رفتار بولنگ کا یوں ثمر آور ثابت ہونا پاکستان کے لیے کسی نویدِ بہار سے کم نہیں۔ نسیم شاہ کے لیے یہ سیزن پہلے ہی بہت مثبت ثابت ہوا ہے اور اب تو شاید شون ٹیٹ کی کوچنگ بھی انہیں راس آ گئی ہے۔ گویا ایشیا کپ میں پاکستان کے لیے امکانات کے دیے کچھ تو روشن ہوئے ہیں۔

اگر ایشیا کپ میں بھی پاکستان کو یونہی نسیم شاہ کی برق رفتار درستی اور حارث رؤف کی جارحیت کے ہمراہ، محمد وسیم کی یہ مسکراہٹ آمیز دانش مندی بھی دستیاب ہو تو شاید یوں بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں۔