برٹش اوپن جونیئر سکواش چیمپیئن شپ جیتنے والے پاکستانی کھلاڑی حمزہ خان جنھوں نے 14 سال کی عمر میں دنیا فتح کر لی

حمزہ

،تصویر کا ذریعہTwitter/SportsBoardPak

    • مصنف, عبدالرشید شکور
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

برٹش اوپن جونیئر سکواش چیمپئن شپ کے انڈر 15 فائنل میں پاکستان کے حمزہ خان کی کامیابی کو ان کے روشن مستقبل کے تناظر میں ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

حمزہ خان نے فائنل میں انگلینڈ کے یوسف شیخ کو شکست دی۔ سیمی فائنل میں انھوں نے مصر کے یاسین شہدی کو ہرایا تھا۔

14 سالہ حمزہ خان نے اپنے ٹیلنٹ کی ایک جھلک اسی سال مکاؤ میں منعقدہ ایشین جونیئر سکواش چیمپئن شپ میں انڈر 15 ٹائٹل جیت کر دکھادی تھی جس کے بعد مبصرین نے برٹش اوپن جونیئر کے ٹائٹل کے لیے حمزہ خان کو بھی فیورٹ کھلاڑیوں میں سے قرار دیا تھا۔

پڑھیے پاکستانی کھلاڑیوں کی کہانیاں

حمزہ خان کون ہیں؟

حمزہ خان کا تعلق پشاور سے ہے جو سکواش کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ ان کے والد نیاز اللہ خان سول ایوی ایشن میں ایئر ٹریفک سپروائزر ہیں۔ نیاز اللہ خان سابق برٹش اوپن چیمپئن قمر زمان کے برادر نسبتی ہیں۔

حمزہ خان کے ماموں شاہد زمان بھی انٹرنیشنل کھلاڑی رہ چکے ہیں۔

حمزہ خان

،تصویر کا ذریعہAPP

نیاز اللہ خان نے خود اپنے زمانہ طالب علمی میں اسلامیہ کالج اور پشاور یونیورسٹی کی طرف سے سکواش کھیلی ہے۔ وہ حمزہ خان کے پہلے کوچ بھی ہیں جنھوں نے اپنے بیٹے کو اس کھیل کے بنیادی اصول سکھائے۔

نیاز اللہ خان بتاتے ہیں کہ نویں جماعت کے طالب علم حمزہ خان نے بہت کم عمری میں سکواش شروع کی۔ ابتدا میں وہ گھر کی دیوار کے ساتھ کھیلا کرتے تھے ۔ان کے اس شوق کو دیکھ کر انھیں اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ ایک اچھے کھلاڑی بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

حمزہ خان بعد میں پشاور میں پاکستان ایئر فورس اکیڈمی کا حصہ بنے جہاں کئی باصلاحیت کھلاڑی تربیت حاصل کرتے ہوئے بین الاقوامی مقابلوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ اب وہ پاکستان سکواش فیڈریشن کے کوچنگ پروگرام کے تحت ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں۔

نیاز اللہ خان کہتے ہیں کہ حمزہ خان اپنے کھیل اور کریئر کے معاملے میں غیر معمولی سنجیدہ ہیں اور صبح سویرے اپنی جسمانی تربیت کرتے ہیں جس کے بعد تقریباً چار گھنٹے کورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔

نیاز اللہ خان کا کہنا ہے کہ حمزہ خان نے پہلی مرتبہ اپنے ٹیلنٹ کا احساس اُس وقت دلایا جب انھوں نے چیف آف ایئر اسٹاف چیمپئن شپ میں ایک کوالیفائر کی حیثیت سے کھیلتے ہوئے انڈر 11 کا فائنل کھیلا۔

ان کے والد کے مطابق اس ٹورنامنٹ میں انھوں نے پاکستان کے نمبر ایک کھلاڑی کو شکست دی تھی۔

حمزہ خان نے لگاتار دو سال ایشین انڈر15 ٹائٹل جیتا ہے۔ دو سال قبل انھوں نے انڈیا کے شہر چنئی میں انڈین کھلاڑی کو فائنل میں ہرایا تھا۔ وہ قطر اور ملائشیا میں ہونے والے جونیئر ٹورنامنٹس بھی جیت چکے ہیں۔

حمزہ خان نے چار سال کے عرصے میں مختلف ٹورنامنٹس میں نو طلائی اور تین چاندی کے تمغے جیتے ہیں۔

حمزہ

،تصویر کا ذریعہNiazullah Khan

ٹیلنٹ نہ ہوتا تو کیسے جیت پاتا؟

سابق برٹش اوپن چیمپئن قمر زمان کا کہنا ہے کہ حمزہ خان ایک باصلاحیت کھلاڑی ہے۔ ’وہ باصلاحیت ہے اسی لیے تو برٹش اوپن جونیئر چیمپئن شپ میں جیتا ہے۔ اب یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ کتنی زیادہ محنت کرتا ہے اور اپنی کارکردگی کو مزید بڑھاتے ہوئے بین الاقوامی سرکٹ میں کس طرح داخل ہوتا ہے۔‘

قمر زمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں باصلاحیت کھلاڑیوں کی کمی نہیں ہے لیکن چند ہی کھلاڑی ایسے ہیں جو سخت محنت سے دل نہیں چُراتے۔

’سکواش بہت زیادہ محنت طلب کھیل ہے۔ چیمپیئن بننے کے لیے بہت زیادہ پریکٹس درکار ہوتی ہے۔‘

برٹش اوپن جونیئر چیمپیئن شپ کتنی اہم؟

برٹش اوپن جونیئر ایک ایسا ایونٹ ہے جس میں کارکردگی باصلاحیت کھلاڑیوں کے روشن مستقبل کا پتہ دے دیتی ہے۔

حمزہ

،تصویر کا ذریعہNiazullah Khan

حمزہ خان سے قبل برٹش اوپن جونیئر انڈر ٹائٹل جیتنے والے آخری پاکستانی کھلاڑی اسرار احمد تھے جنھوں نے 2012 کے فائنل میں مصرکے یوسف سلیمان کو شکست دی تھی۔

اسی ایونٹ میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے دنیا کے کئی نوجوان کھلاڑی انٹرنیشنل سرکٹ میں آئے اور عالمی چیمپئن بھی بنے، جن میں اکثریت مصری کھلاڑیوں کی ہے۔

مصر حالیہ برسوں میں جونیئر سکواش کی ایک بڑی قوت کے طور پر سامنے آیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مصر اپنے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ہر سال برٹش اوپن جونیئر کی تمام کیٹیگریز میں کھیلنے کا بھرپور موقع فراہم کرتا ہے۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے 10 برسوں کے دوران مصر نے چیمپیئن شپ کی 10 کیٹگریز میں مجموعی طور پر 112 ٹائٹلز جیتے ہیں جبکہ پاکستان اس عرصے میں صرف 12 ٹائٹلز جیتنے میں کامیاب ہوسکا ہے۔