آسٹریلیا، پاکستان ٹیسٹ پر سمیع چوہدری کا کالم: حارث سہیل کیا سوچ رہے ہیں؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, سمیع چوہدری
- عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار
حارث سہیل کیا سوچ رہے ہیں؟ شاید وہ فرنٹ فٹ پر نہیں آنا چاہ رہے اور کریز میں کھڑے کھڑے انھی قدموں پر پُل شاٹ کھیلنا چاہ رہے ہیں۔ لیکن کیا انھیں پُل اور ہُک جیسے شاٹس کھیلنا چاہیے؟
دبئی اور ابو ظہبی کی سست وکٹوں پر ایسے خطرناک شاٹس کھیلنا کوئی مشکل نہیں ہوتا جہاں گیند کو بولر کے ہاتھ سے نکل کر بلے تک پہنچنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔
تو کیا اسی تکنیک کے ساتھ گابا کی طوفانی وکٹ پر بھی سکوئر میں کھیلا جاسکتا ہے؟ تو کیا مسئلہ واقعی ان کی تکنیک کا ہے؟
حارث سہیل کو معلوم ہوگا کہ اگر یہ سیٹ اپ نتائج پیدا نہیں کر پاتا تو تقریباً سب سے پہلا نشانہ وہی ہوں گے کیونکہ اس بیٹنگ لائن اپ میں صرف وہ اور افتخار احمد ہی دو ایسے مہرے ہیں جن کو بساط سے اٹھایا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اگر پاکستان اظہر علی سے اوپن کروانے کے بجائے شان مسعود اور امام الحق سے اوپن کرے اور اظہر علی ون ڈاون پر کھیلیں، اسد شفیق چار، بابر اعظم پانچ، افتخار احمد چھ اور رضوان سات پر کھیلیں تو حارث سہیل کو ہی اپنی جگہ کی قربانی دینا پڑے گی۔
اگرچہ چھٹے نمبر کے لیے بحث ہو سکتی ہے کہ افتخار کی ناتجربہ کاری اور جلد بازی کے مقابل حارث سہیل کے تجربے کو ترجیح دی جائے لیکن جس فارم اور تکنیک کے ساتھ وہ اس وقت کھیل رہے ہیں، کسی جونیئر کو ان کی جگہ الیون میں شامل کرنا کوئی مشکل فیصلہ ہرگز نہیں ہو گا۔
کسی بھی زاویے سے دیکھا جائے تو حارث سہیل کو تیسرے نمبر پر کھلانا تزویراتی لحاظ سے درست فیصلہ نہیں ہے۔ ون ڈے میں ممکن ہے یہ درست ثابت ہو لیکن آسٹریلوی وکٹوں پر اور وہ بھی ٹیسٹ کرکٹ میں؟ ہرگز نہیں۔۔۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اظہر علی کو بطور کپتان اوپن کرنا چاہیے یا نہیں، فی الوقت یہ خاصا دقیق سوال ہے۔ مشکل کنڈیشنز میں ایک یکسر نئی ٹیم کے ساتھ کھیلنا اور بولنگ میں بھی اپنے تجربہ کار ترین بولر کے بغیر اٹیک کرنے جیسا کارِ دشوار درپیش ہو تو اوپننگ ایک اضافی بوجھ کے سوا کچھ نہیں رہ جاتی۔
لیکن ہمیں نتائج اخذ کرنے میں جلدبازی بالکل نہیں کرنی چاہیے۔
بطور کپتان یہ اظہر علی کا پہلا میچ تھا اور امید ہے کہ وقت کے ساتھ وہ سیکھتے جائیں گے کہ کون سی الیون کو کھلانا ہے اور کس کو کب اٹیک کروانا ہے۔
پاکستان شاید یہ میچ اتنے بڑے مارجن سے نہ ہارتا اگر پہلی اننگز کی تباہ حال بیٹنگ کے بعد بولنگ کا حال بھی ویسا ہی پتلا نہ ہوتا۔ نئے گیند کے ساتھ بولنگ کے امتحان میں پاکستان بری طرح ناکام رہا۔
وجہ یقیناً تجربے کی کمی رہی ہو گی۔ کیونکہ محمد عباس کو چھوڑ کر پاکستان نے عمران خان کو کھلانے کا کڑوا جوا محض ایک ٹور میچ کی پرفارمنس پر کر لیا جو کہ یقیناً آسٹریلیا کی سیکنڈ چوائس الیون کے خلاف تھی۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ساؤتھ افریقہ کے دورے ایشین ٹیموں کے لیے ہمیشہ کڑوے سبق ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسی ٹیموں کے لیے یہ دشواری سوا ہوتی ہے کہ جنھیں سیریز بھی دو تین میچز کی ہی ملتی ہے۔
اگر سیریز دو کے بجائے چار یا پانچ میچز پر محیط ہو تو مہمان ٹیم کے لیے فارم میں واپسی کا موقع ہوتا ہے۔ جس طرح پاکستان نے پہلے دو دن کی نسبت اگلے دو دن بہت بہتر کرکٹ کھیلی، اسی طرح اگر ٹور 10 روز کے بجائے 20 روز کی کرکٹ پر مشتمل ہو تو درجہ بدرجہ بہتری آتی جاتی ہے۔
گابا میں پاکستان کا ہار جانا اور آسٹریلیا کا جیتنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ میزبان ٹیم پچھلے 30 سال سے اس گراؤنڈ پر ناقابلِ تسخیر رہی ہے۔ ایشین ٹیم کے لیے یہاں جیتنا ویسے بھی قسطنطنیہ فتح کرنے جیسی بات ہے۔
لیکن اگر پاکستان کی جانب سے اپنی ٹیم سلیکشن بہتر کی جاتی اور پہلے دن لنچ کے بعد دوسرے سیشن میں قدرے بہتر کرکٹ کھیلی جاتی تو شاید ہزیمت کا مارجن ہی کم پڑ جاتا۔













