#AUSvsPAK: برسبین ٹیسٹ پر سمیع چوہدری کا تجزیہ، ’پاکستان کی قسمت خراب نہیں تھی‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, سمیع چوہدری
- عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار
پاکستان کی قسمت خراب نہیں تھی۔ بدیسی وکٹوں پر ٹاس جیت جانا کوئی معمولی بات نہیں کیونکہ ٹیسٹ میچ کے نتیجے میں ٹاس اس قدر کلیدی کردار ادا کرتا ہے کہ کئی سینیئر پلئیرز اس رائے کے حامی رہے ہیں کہ ٹاس ختم کر کے فیصلے کا اختیار میزبان کپتان کو دے دیا جائے۔
گابا میں ٹاس تو ہوا مگر خوبی قسمت کہ پہلے بیٹنگ یا بولنگ کے فیصلے کا اختیار اظہر علی کو ملا۔ اظہر علی نے فیصلہ بھی درست کیا اور اسے نبھانے کی پوری کوشش بھی کی۔
پہلے 30 اوورز تک میچ پاکستان کی گرفت میں تھا۔ اظہر علی نے ٹاس کے وقت یہی کہا تھا کہ گو اس وکٹ پر ہلکی سی گھاس موجود ہے لیکن پہلے دو گھنٹے گزار لیے جائیں تو اس مٹی میں کافی رنز موجود ہیں۔
پہلے دو گھنٹے ٹھیک گزارنے کے لیے اظہر علی اور شان مسعود نے صبر کا دامن نہایت مضبوطی سے تھامے رکھا۔ پہلے روز لنچ کے بعد میچ اس حد تک پاکستان کے کنٹرول میں تھا کہ کمنٹری باکس سے شین وارن نے اظہارِ خیال کیا کہ پاکستان یہاں 400 رنز بنانے کی سمت میں گامزن ہے۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی

،تصویر کا ذریعہGetty Images
لیکن جب پاکستان کی وکٹیں گرنے لگتی ہیں تو پھر ایک دو نہیں، قطار اندر قطار گرتے چلی جاتی ہیں۔ کمنز کی سٹرائیک کے فوری بعد ہیزل وڈ نے اپنا جادو دکھایا اور پھر نیتھن لائن اور مچل سٹارک نے بھی اپنا حصہ ڈال دیا۔
اس میچ سے پہلے آسٹریلوی کپتان ٹِم پین نے کہا تھا کہ ٹور میچ میں شاندار پاکستانی پرفارمنس کا گابا کے میچ پہ کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اور پھر ہوا بھی یہی۔
اگر اسد شفیق کچھ مزاحمت نہ دکھاتے تو یقینی تھا کہ پہلے دو سیشن میں ہی پاکستان میچ سے بے دخل ہو جاتا۔ مگر یاسر شاہ کے ساتھ 26 اوورز پہ محیط پارٹنرشپ نے پاکستان کو ایک مناسب سے ٹوٹل تک پہنچا ہی دیا۔
محمد عباس کو پلئینگ الیون میں شامل نہ کر کے پاکستان نے بہت بولڈ فیصلہ کیا۔ بات تو ٹھیک تھی کہ ٹور میچ کی فارم پر عمران خان کو محمد عباس پہ ترجیح دی جاتی مگر یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے تھا کہ شاہین آفریدی اور نوآموز نسیم شاہ کو کم از کم ایک تو ایسا تجربہ کار لیڈر میسر ہو جو گذشتہ دو سال باقاعدگی سے انٹرنیشنل کرکٹ کا حصہ رہا ہو۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایسا نہیں کہ بولنگ کوچ وقار یونس نے اس لائن اپ کو کوئی پلان ہی نہیں دیا ہو گا۔ لیکن وہ پلان تھا کیا، کسی کی سمجھ میں نہ آ سکا حتیٰ کہ وقار یونس کے اپنے بولرز بھی اس پلان کو سمجھ نہ پائے۔
پہلے دس اوورز میں ہی واضح ہو گیا کہ پاکستان کا تھینک ٹینک تمام تر پلاننگ صرف سٹیو سمتھ کو آؤٹ کرنے کی ہی کرتا رہا اور اس بیچ کسی نے یہ سوچا ہی نہیں کہ ڈیوڈ وارنر کا کیا کرنا ہے۔
ایشز سیریز میں وارنر کی فارم کا یہ عالم تھا کہ پانچ میچز میں صرف 95 رنز بنا سکے۔ پاکستان کے خلاف پہلے ہی ہوم میچ کے ایک دن میں وارنر نے اپنا حالیہ ایشز کا سارا ’ریکارڈ‘ توڑ ڈالا۔
اظہر علی کی کپتانی میں بھی کوئی کاٹ نظر نہیں آئی۔ ایسا لگا کہ اظہر علی نہیں، مصباح کپتانی کر رہے ہوں جن کا وطیرہ تھا کہ دفاعی فیلڈ سیٹنگ کے ساتھ رنز روک کر پریشر پیدا کیا جائے اور اس کے نتیجے میں وکٹیں ملیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
یہ گُر سست ایشین وکٹوں پر تو خوب فائدہ مند رہتا ہے مگر آسٹریلین وکٹوں کا یہ ہے کہ یہاں رنز رُکتے نہیں۔ یہاں وکٹیں لینے کے لیے غیر روایتی آئیڈیاز اپنانا پڑتے ہیں اور دلیری سے فیلڈ سیٹ کرنا پڑتی ہے۔
روایتی دفاعی کپتانی اور بے مغز بولنگ کا ثمر یہ ہوا کہ پاکستان کے سارے پلان بارش میں ریت کی طرح بہہ گئے۔ قسمت کی ستم ظریفی اور 87 اوورز کی مشقت کے بعد بھی صرف ایک وکٹ حصے میں آئی اور وہ بھی ڈیوڈ وارنر کی نہیں تھی۔
فی الوقت پاکستان اس میچ میں اپنے حریف سے میلوں پیچھے رینگ رہا ہے۔ شکست حتمی ہے، بس یہ طے ہونا باقی ہے کہ ہزیمت کا مارجن کیا ہو گا۔












