آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
'اتنی لمبی لڑکیاں ہیں، ہم کیسے کھیلیں گے؟'
- مصنف, عمر دراز
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
محض ایک سال قبل قومی سطح پر ایک ٹیم کے طور پر اکٹھا ہونے والی پاکستانی لڑکیوں نے بین الاقوامی رگبی کی دنیا میں قدم رکھ دیے ہیں۔
حال ہی میں مشرقی ایشیا کے ملک لاؤس میں منعقدہ سات ملکی مقابلوں میں پاکستانی خواتین کی ٹیم نے عالمی سطح پر رگبی کی دنیا میں اپنی فتوحات کا سلسلہ شروع کیا، وہیں انھوں نے اپنی ہم وطن لڑکیوں کے لیے عام طور پر ممنوع سمجھے جانے والے اس کھیل میں شرکت کی راہ ہموار کر دی۔
پاکستان میں لڑکیوں نے جب بھی ایسے کھیلوں میں حصہ لیا جن کو عام طور پر صرف لڑکوں سے منسوب سمجھا جاتا تھا، تو وہ خبروں کا موضوع بنتی رہی ہیں۔
تاہم آج خواتین کرکٹ، فٹبال، تیراکی اور دیگر کئی کھیلوں میں عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں۔
رگبی کا کھیل ایسے کھیلوں سے قدرے مختلف ہے۔ اس کو کافی جارحانہ اور مشقت آمیز کھیل تصور کیا جاتا ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں خواتین کی اس کھیل میں شمولیت اور قومی سطح پر ان کی ٹیم تشکیل دیے جانے پر تقریباً ایک سال قبل تک کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی تھی جبکہ ہمسایہ ممالک انڈیا اور نیپال سمیت کئی دوسرے ممالک کی خواتین کی ٹیمیں پہلے ہی سے موجود ہیں۔
پاکستانی خواتین کی رگبی ٹیم کی کپتان عذرا فاروق اور ان کی ساتھی کھلاڑی لڑکیاں اب اس صورتحال کو بدلنے کی خواہاں ہیں۔
اس جارحانہ نوعیت کے کھیل میں حصہ لینے کے لیے کھلاڑیوں کو بلند ہمت و حوصلہ تو درکار ہوتا ہی ہے، ساتھ میں مضبوط قد کاٹھ کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
عذرا فاروق کے مطابق لاؤس میں ہونے والی حالیہ ایشین ویمنز رگبی سیونز میں فٹنس کے اعتبار سے پاکستانی خواتین کو جنوبی کوریا کے بعد شاید دوسرے نمبر پر شمار کیا جا سکتا تھا۔ ان مقابلوں میں میزبان لاؤس کے علاوہ بھارت، نیپال، جنوبی کوریا، فلپائن اور ملائیشیا کی ٹیموں نے حصہ لیا تھا۔
'میچ شروع ہونے سے پہلے تو دوسرے ممالک کی لڑکیاں ہمیں دیکھتی تھیں کہ یہ اتنی لمبی لڑکیاں ہیں ہم کھیلیں گے کیسے۔'
پانچ فٹ دس انچ سے زیادہ قد رکھنے والی عذرا کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کو ہار شاید سٹیمنا کی کمی کی وجہ سے دیکھنا پڑی۔
خیال رہے کہ خواتین کی یہ ٹیم تقریباً ایک سال قبل وجود میں آئی تھی اور ایشین ویمنز رگبی سیونز ان کا پہلا بین الاقوامی مقابلہ تھا جس میں وہ نیپال کو شکست دے کر چھٹے نمبر پر رہی۔
عذرا خود ایک نجی سکول میں ٹیچر ہیں اور رگبی سے پہلے فٹبال کھیلتی رہی ہیں۔ وہیں سے ان کا دھیان رگبی کھیلنے کی جانب ہوا تاہم ابتدا میں وہ اس کو ایک مشکل کھیل سمجھتی تھیں۔
'جب کھیلا تو اتنا مشکل نہیں لگا اور اب تو رگبی کھیلنا ایک معمول بن گیا ہے۔'
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان کو پتا تھا کہ فٹبال کی طرح کا کھیل ہے، اس لیے انھوں نے اعتراض نہیں کیا۔ جبکہ عذرا کی ساتھی کھلاڑی مہرُو خان نے رگبی کینیڈا میں دورِ تعلیم میں کھیلنی شروع کی اور باسکٹ بال کے ساتھ ساتھ رگبی بھی ان کا شوق ہے۔
پاکستانی ٹیم کی دونوں خواتین کھلاڑیوں کا کہنا ہے کے ان کو یا ان کی کسی بھی ساتھی کھلاڑی کو ان کے خاندانوں کی طرف سے کسی دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مہرُو خان کا کہنا ہے کے جب والدین کو پتا ہے کہ یہ لڑکیاں عالمی سطح پر جا کر اپنے ملک کی نمائندگی کریں گی تو وہ کیوں منع کریں گے۔
'بلکہ میرے والدین نے تو ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی ہے۔ انھوں نے ہمیشہ کہا کہ جتنا جی چاہے کھیلو، ہاں مگر ساتھ تعلیم کا زیاں نہیں ہونا چاہیے۔'
مہرُو خان کہتی ہیں کہ رگبی ایسا کھیل نہیں جو پڑھائی کے ساتھ ساتھ جاری نہ رکھا جا سکے تاہم وہ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد بھی اس کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
دونوں کھلاڑیوں کے کہنا ہے کہ رگبی کے کھیل میں چوٹیں لگنا عام سی بات ہے مگر اس کے باوجود وہ مرہم پٹی کر کے کھیل جاری رکھتی ہیں۔
عذرا نے بتایا کہ حال ہی میں ہونے والے بین الاقوامی مقابلوں کے دوران ان کی ایک ساتھی سر پر چوٹ آنے کے باعث بےہوش بھی ہو گئی تھیں۔
'اس کے باوجود اس نے انڈیا کے خلاف ہونے والا میچ کھیلنے پر اصرار کیا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے والد سے کوچ کو بھی کہلوایا کہ اسے کھیلنے کی اجازت دی جائے۔ جبکہ ڈاکٹر نے اس کو بتایا تھا کہ اگر وہ کھیلی اور اس کو دوبارہ سر پر چوٹ آئی تو اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔'
چونکہ پاکستان میں اس کھیل میں خواتین نئی آئی ہیں تو ان کو لڑکوں کی طرف سے کبھی کبھار تمسخرانہ رویہ بھی دیکھنے کو ملتا تھا۔
’جب ہمارا کیمپ لگا ہوتا تھا تو باہر سے لڑکے کبھی کبھی موٹر سائیکلوں پر جاتے ہوئے جملے کستے تھے مگر ہم ان کو نظرانداز کرتے تھے۔ آدھے سے زیادہ دفعہ تو آواز ہی نہیں آتی تھی کہ کہہ کیا رہے ہیں تو نظرانداز کرنا مشکل نہیں ہوتا تھا۔‘
تاہم لڑکوں کی رگبی ٹیم کے ساتھی کھلاڑیوں کے حوالے سے دونوں خواتین کھلاڑیوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایشین ویمنز رگبی سیونز کی تیاری کے دوران لڑکیوں کے بہت مدد کی اور ان کو مکمل سپورٹ کیا۔
مہرُو خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین میں رگبی کے کھیل کو فروغ دینے کیلیے ضروری ہے کہ اسے سکول کی سطح پر متعارف کرایا جائے جبکہ پاکستان رگبی ٹیم کی کپتان عزرا فاروق کہتی ہیں کہ ان کی ٹیم کو بین الاقوامی مقابلوں میں کھیلنے کے مزید مواقع دیے جانے چاہیں تاکہ وہ اچھی ٹیموں کے برابر آ سکیں۔