’مریخ کے پانچ کلومیٹر اونچے پہاڑ کا راز کھل گیا‘

،تصویر کا ذریعہBBC World Service
سیارہ مریخ پر موجود امریکی خلائی ادارے ناسا کی روبوٹک گاڑی پر کام کرنے والے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اب وہ اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ مریخ کےگیل نامی گڑھے میں کیوروسٹی نامی گاڑی کے اترنے کے مقام پر ایک بہت بڑا پہاڑ کیوں موجود ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ یہ پہاڑ یہاں پر ماضی میں موجود جھیلوں میں پانی کے مسلسل بہاؤ کے نتیجے میں جمع ہو نے والی کیچڑ اور گاد کا نتیجہ ہے اور اس کی تشکیل میں غالباً دسیوں لاکھ سال لگے ہوں گے۔
اور آج ہم مریخ پر جس پانچ کلومیٹر اونچی چوٹی کو دیکھتے ہیں وہ ماضی میں چلنے والی تیز ہواؤں کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔
اگر یہ سچ ہے تو اس سے ماضی میں سرخ سیارے کے موسم کے بارے میں کافی کچھ پتاچل سکتا ہے۔
بہت سے لوگوں کی سوچ کے برعکس یہ دنیا اپنے پہلے دو ارب سالوں میں گرم اور تر رہی ہوگی۔

،تصویر کا ذریعہESA
کیوروسٹی روورکی ٹیم کا کہنا ہے کہ یقیناً قدیم مریخ میں بارشوں اور برفباری سمیت شدید نوعیت کی موسمی تبدیلیاں ہوتی رہی ہونگی اور ماضی میں سیارے پر ایک سمندر کے موجود ہونے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔
کیوروسٹی پروجیکٹ کے ایک سائنسدان ڈاکٹر اشون واساوادہ کا کہنا ہے کہ لاکھوں سال تک ایک جھیل کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے پانی کے بڑا ذخیرے، جیسے سمندر، کا سیارے پر موجود ہونا ضروری ہے۔
کئی دہائیوں سے محققین مریخ کی ابتدائی تاریخ میں سیارے پر ایک بڑے سمندر کے ہونے کا شبہ ظاہر کر رہے ہیں اور کیوروسٹی کے حالیہ نتائج یقناً اس بحث کو دوبارہ بھڑکانے کا سبب بنیں گے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
گیل جیسے گڑھوں کے درمیان میں اکثر ابھار ہوتے ہیں مگر اتنے بڑے نہیں جتنا یہ پہاڑ ہے۔

،تصویر کا ذریعہNASA
کیوروسٹی کے انکشافات ایک سال کے ارضیاتی مشاہدے کا نتیجہ ہیں، جو اس نے اپنی لینڈنگ سائٹ سے جنوب کی جانب سفر کے دوران کیا۔ جس کے دوران اس نے بڑی مقدار میں کیچڑ دیکھی جو یقینی طو پر قدیم دریاؤں کے بہاؤ کی وجہ سے جمع ہوئی ہے۔
کیوروسٹی جنوب کی جانب جتنی گئی تو واضح ہو تا گیا کہ یہ آبی سرگرمی گڑھوں کے درمیان جامد جھیلوں تک جاتی ہے۔
لیکن حتمی طور پر یہ بات اس وقت ثابت ہوئی جب روور نے ایک اونچے مقام سے اس گاد کو پہاڑ کے دامن کی جانب غوطہ کھاتے ہوئے دیکھا۔
مشن کے سائنسدان اور امپیریل کالج لندن کے پروفیسر سنجیو گپتا کا کہنا ہے کہ ہم ہمیشہ یہ منظم نمونہ دیکھتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہNASA
اس سے پتہ چلتا ہے کہ پانی گڑھے کی ڈھلان کی طرف جا رہا تھا جہاں یہ جمع ہوتا تھا اور لاکھوں سال تک تہہ در تہہ گاد جمع ہو نے سے یہ پہاڑ بن گیا ہے۔
کیوروسٹی پروجیکٹ کے سائنسدان پروفیسر جان گروٹزنگر نے روور کے کام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس پہاڑ کا معمہ روبوٹ کے سطح پر موجود ہونے سے ہی حل ہو سکتا تھا، مصنوعی سیارے سے مشاہدے کے ذریعے اس کو سمجھا نہیں جا سکتا تھا۔
بہت سے سوال اب بھی موجود ہیں، جیسا کہ مریخ پر پانی کتنے عرصے تک موجود تھا۔ ہو سکتا ہے کہ پہاڑ بننے کا عمل ایک تھوڑے عرصے میں ہوا ہو اور یہ تصور کہ ماضی میں مریخ زیادہ گرم تھا اس وقت کے موجود موسمی ماڈلز سے بر عکس ہے۔

،تصویر کا ذریعہBBC World Service
ڈاکٹر وسادہ کا کہنا ہے کہ ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مضر صحت گیسوں کی موجودگی کے باوجود موسمی ماڈلز میں درجہ حرارت کو بڑھانا مشکل ہے مگر اگر ایسا نہ کیا جائے تو پانی فوراً جم جائےگا۔
ٹیم امید کر رہی ہے کہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں کیوروسٹی کے مزید مشاہدات کی روشنی میں ان میں سے کچھ سوالات کے جواب مل سکیں گے۔

،تصویر کا ذریعہBBC World Service







