مریخ پر زندگی کی تلاش: ناسا نے پرسیویرینس کی سرخ سیارے پر اترنے کے وقت کی تصویر جاری کردی

ناسا، پرسویرنس، مریخ

،تصویر کا ذریعہNASA/JPL-CALTECH

امریکی خلائی ادارے ناسا نے اپنے نئے روبوٹ پرسیورینس کی جانب سے مریخ سے بھیجی گئی ایک حیران کُن نئی تصویر جاری کر دی ہے۔

اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ روبوٹ جمعرات کو لینڈنگ کے لیے سرخ سیارے کی سطح کے قریب ہو رہا ہے۔ یہ تصویر اس راکٹ نے لی جس نے اس روبوٹ کو سطح پر اتارا تھا۔

پرسیورینس کے پاس بہت بڑی تعداد میں ڈیٹا موجود ہے جو اب یہ آہستہ آہستہ زمین پر واپس بھیج رہا ہے۔

ایک اور تصویر ایک مصنوعی سیارچے سے لی گئی ہے جس میں پرسیورینس کو پیراشوٹ کے ذریعے اترتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ تصویر بھی اپنے آپ میں ایک تکنیکی کامیابی ہے کیونکہ مارس ریکونیسینس آربیٹر نامی یہ سیارچہ اس وقت پرسیورینس سے 700 کلومیٹر دور تھا اور تین کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر رہا تھا۔

مزید پڑھیے

ناسا نے اگلے چند دنوں میں مزید تصاویر شائع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

متوقع فوٹیج میں مریخ کی فضا میں داخلے، نیچے اترنے اور لینڈنگ کی مختصر ویڈیوز آواز کے ساتھ ہوں گی۔

ناسا، پرسویرنس، مریخ

،تصویر کا ذریعہNASA/JPL-CALTECH/UNIVERSITY OF ARIZONA

،تصویر کا کیپشنمارس ریکونیسنس آربیٹر نے یہ تصویر اس وقت لی جب روور مریخ کی سطح پر پیراشوٹ کے ذریعے اتر رہا تھا

ناسا نے پرسیورینس روور جمعرات کو سیارے کے خطِ استوا (ایکوئیٹر) کے قریب جیزیرو نامی ایک گہرے گڑھے میں اتارا ہے۔

پرسیورینس روور کے چیف انجینیئر ایڈم سٹیلٹزنر نے کہا کہ اوپر سے لی گئی روبوٹ کی یہ تصویر خلائی تحقیق کی تاریخ میں ایک اہم علامت بنے گی۔

اُنھوں نے بتایا کہ یہ تصویر اس وقت لی گئی جب پرسیورینس روور کو مریخ کی سطح پر اتارا جا رہا تھا۔

'آپ وہ غبار دیکھ سکتے ہیں جو انجنوں کی وجہ سے اُڑ رہا ہے۔ یہ شاید اس وقت مریخ کی سطح سے تقریباً دو میٹر کی بلندی پر تھا۔‘

'آپ تین سیدھی لکیروں کی صورت میں وہ مکینیکل لگامیں دیکھ سکتے ہیں جو ڈیسینٹ سٹیج یعنی روبوٹ کو اتارنے والے راکٹ سے روبوٹ کے اوپری حصے کی جانب جا رہی ہیں۔ اس کے بعد ایک بل کھاتی برقی تار ہے جو ڈیسینٹ سٹیج سے روور کے کمپیوٹر تک جا رہی ہیں جس میں تمام برقی سگنلز بشمول اس تصویر کو بنانے والے ایک اور صفر کے ہندسے دوڑ رہے ہیں۔'

جیزیرو گڑھے کی سب سے زیادہ تفصیلی تصاویر اگلے ہفتے سامنے آئیں گی جب پرسیورینس مرکزی سائنسی کیمروں والا اپنا مستول بلند کر لے گا۔

پرسیویرینس کی سرفیس سٹریٹجک مشن مینیجر پاؤلین ہوانگ نے بتایا: 'ایک مرتبہ جب مستول کامیابی سے بلند ہوجائے گا، جو سنیچر کو ہونا ہے، تو ہم بہت سی تصاویر لینا شروع کریں گے۔ ہم روور کے عرشے کا ایک پینوراما بنائیں گے اور اس کے علاوہ آس پاس کی سطح کا مکمل پینوراما بھی بنائیں گے۔'

انجینیئرز بتدریج اس روور کے مختلف سسٹمز کو آن کرتے جا رہے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ یہ محفوظ حالت میں ہے۔

ناسا، پرسویرنس، مریخ

،تصویر کا ذریعہNASA/JPL-CALTECH

،تصویر کا کیپشنپرسیورینس روور کی مریخ کی سطح سے بھیجی گئی تصویر جس میں اس کے مشینی بازو کا سایہ دیکھا جا سکتا ہے

خلائی مشن کے شوقین یہ توقع کر سکتے ہیں کہ اس روور کے ذریعے بہتر تصاویر اور ویڈیو دیکھی جاسکیں گی۔ اس مشن پر 20 سے زیادہ کیمرے اور دو مائیکرو فون ہیں۔ دو کیمرے ایک چھوٹے ہیلی کاپٹر پر ہیں جو مریخ کی ویران آب و ہوا میں اڑان بھرنے کی کوشش کریں گے۔

پرسیویرینس کا مشن کیا ہے؟

چھ پہیوں والا یہ روبوٹ اب کم از کم دو سال تک جیزیرو نامی اس گڑھے کے پتھروں میں ڈرلنگ کر کے ماضی میں یہاں زندگی کی موجودگی کے ثبوت اکٹھے کرے گا۔

جیزیرو کے بارے میں خیال ہے کہ اس میں اربوں سال قبل ایک بہت بڑی جھیل موجود تھی۔ اور جہاں پانی موجود ہو وہاں زندگی کی موجودگی کا امکان بھی موجود ہوتا ہے۔

ناسا، پرسویرنس، مریخ

،تصویر کا ذریعہNASA/JPL-CALTECH

،تصویر کا کیپشنسائنسدانوں نے روور کے پہیوں کے نیچے موجود پتھروں کا تجزیہ بھی شروع کر دیا ہے

پرسیویرینس کی لینڈنگ ٹیکنالوجی نے اسے تقریباً عین اسی جگہ اتارا جسے ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ یہ مقام ایک قدیم دریائی ڈیلٹا کی باقیات سے دو کلومیٹر جنوب مشرق میں ہے جو ایک جھیل کے کنارے پر بنا۔

اس وقت یہ دو ارضیاتی یونٹس کی سرحد پر ہموار سطح پر کھڑا ہے۔ اس روور کے پہیوں کے نیچے موجود ارضیاتی یونٹ میں سیاہ آتش فشائی چٹانیں ہیں جبکہ دوسرے ارضیاتی یونٹ میں ایسی چٹانیں ہیں جن میں اولیوائن نامی معدنی چیز بڑی مقدار میں پائی جاتی ہے۔

مریخ سے پتھروں کے یہ نمونے 2030 کی دہائی میں زمین پر لائے جائیں گے۔

1970 کی دہائی میں وائکنگ لینڈر کے بعد یہ مریخ پر ناسا کا پہلا مشن ہے جو زندگی کے آثار ڈھونڈے گا۔

اس عرصے تک کئی مشنز میں یہ جائزہ لینے کی کوشش کی گئی تھی کہ آیا یہاں انسان بس سکتے ہیں، ماضی میں یہاں کے حالات کس طرح کے رہے ہیں اور کیا بائیولوجی کے لیے یہ موزوں جگہ ہے۔ اس سوال کا جواب اب ڈھونڈ لیا گیا ہے۔

سنہ 2000 کی دہائی میں سپیرٹ اور آپرچونٹی روورز کے مشن اور حال ہی میں کیوروسٹی روبوٹ نے یہ بتایا ہے کہ مریخ زیادہ گرم اور نم ہے۔ یہاں جراثیم یا مائیکرو آرگنیزمز کے پنپنے کے لیے تمام کیمیائی ضروریات پوری ہیں، اگر وہ یہاں کبھی رہے ہیں۔

ناسا، پرسویرنس، مریخ

،تصویر کا ذریعہPA Media

،تصویر کا کیپشنپرسیویرینس کے مریخ کی فضا میں داخل ہونے کا تخیلاتی خاکہ

اب پرسیویرنس کا کام یہ ہوگا کہ قدیم حیات کی نشانیاں ڈھونڈے اور جیزیرو، جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ ایک بڑی جھیل ہوا کرتی تھی، سے نمونے اکٹھے کر کے اس کا جائزہ لے۔

کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں خلائی سائنس کی پروفیسر بیتھنی ایلمین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جس طرح ارضیات کے ماہر زمین کے جغرافیے اور یہاں قدیم حیات پر تحقیق کرتے ہیں اسی طرح اب ہم (مریخ پر) مائیکروبز کی تحقیق ہوگی۔ زمین پر بھی یہ باقیات آپ کو کسی تالاب کی سب سے نچلی سطح پر مل سکتے ہیں۔‘

’ہمیں معلوم ہے کہ ایسی چیزیں زمین پر ساڑھے تین ارب سال قبل بھی موجود تھیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ مریخ کے تالابوں میں بھی ساڑھے تین ارب سال قبل موجود ہوتی تھیں؟‘

حقیقت یہ ہے کہ پرسیویرنس کہ لیے وہیں پر اسے ثابت کرنا مشکل ہوگا۔

زمین پر قدیم حیات کی مثالوں کے موازنے پر بحث عام ہے۔ اس لیے روور ان دلچسپ پتھروں کو اپنی چھوٹی ٹیوبز میں ڈالے گا اور اس دہائی کے اواخر میں انھیں زمین لایا جائے گا جہاں ان کا جائزہ لیا جائے گا۔

ناسا اور یورپی خلائی ادارے نے اس مشن کی کامیابی کے لیے کئی ارب ڈالر کا منصوبہ تشکیل دیا ہے۔

ناسا، پرسویرنس، مریخ

،تصویر کا ذریعہNASA/JPL-CALTECH

سنہ 2026 میں ایک اور چھوٹا روور لانچ کیا جائے گا جو جیزیرو کے قریب پہنچے گا اور پرسیویرنس کے اکٹھے کردہ نمونے حاصل کر لے گا۔

انھیں مریخ کے مدار پر بھیجا جائے گا اور انھیں ایک مصنوعی سیارچے (سیٹلائٹ) کے ذریعے پکڑ کر واپس لایا جائے گا جہاں زمین کی لیبارٹریوں میں اس کی کڑی جانچ ہوگی۔

اس طویل مدتی منصوبے کا مقصد خلابازوں کو مریخ پر پہنچانا ہے۔ پرسیویرنس ایسے تجربات کرے گا جس سے دیکھا جائے گا کہ آیا کہ ممکن ہے کہ مریخ پر سانس لینے لائق آکسیجن پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس سیارے کے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کثرت پائی جاتی ہے۔

ناسا میں سائنس کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر تھامس زربوچن کہتے ہیں کہ کسی ایک مرحلے پر انسان روبوٹس کی پیروی کریں گے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’زمین پر ہمارے پاس بہت سارے روبوٹس ہیں۔ خود مختار طیاروں (جیسے ڈرونز) کی مدد سے ہمیں آسمان سے ویڈیوز اور تصاویر مل جاتی ہیں۔

’لیکن اگر آپ ہمالیہ یا ایلپس کے پہاڑی سلسلوں سے حاصل ہونے والے نمونوں کو جغرافیائی طور پر سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ کو خود بطور انسان وہاں جانا پڑا ہے۔ اور ہم مریخ کے ساتھ بھی ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں۔‘